بھارت کے نئے آرمی چیف جنرل منوج مکنڈ نروا نے جو تازہ ترین بڑھک ماری ہے اور دراصل سابق چیف جنرل بپن راوت کے الفاظ ہی چبائے ہیں میڈیا سے گفتگو میں جنرل منوج نے اوقات سے باہر ہوتے ہوئے کہا ’’بھارتی فوج آزاد کشمیر میں گھسنے کے لیے تیار ہے حکومت کے حکم کا انتظار ہے۔ آزاد کشمیر اپریشن کے کئی منصوبے ہیں جموں و کشمیر سمیت تمام بارڈرز پر فوج تعینات کر رہی ہے۔ ٹاسک ملا تو آسانی سے پورا کر لیں گے‘‘
ادھر پاک فوج کے جوانوں بھی زیادہ آزاد کشمیر اور پاکستان کے لوگ بے چینی سے منتظر ہیں۔ بھارت فوج ادھر گھسنے کی ہمت کرے واپسی کا راستہ بُھلا دیا جائے گا۔ ویسے بہتر ہو گا جنرل منوج اس ناکامی اوررسوائی کے زخم چاٹ لیں جو 65ء کی جنگ میں لاہور جمخانہ کلب میں شراب پینے کی حسرتِ ناتمام کرنے والے اس وقت کے بھارتی کمانڈر کو ہوتی تھی۔ اب بھارتی میڈیا ننکانہ صاحب میں تیس پینتیس افراد کے گوردوارہ کے سامنے مظاہرے اور پشاور میں ایک سکھ نوجوان کے قتل کے واقعات کو اس انداز سے پیش کر رہا ہے جس طرح پاکستان میں سکھوں کا جینا محال کر دیا گیا ہے حالانکہ یہ سکھ نوجوان کا نہیں بلکہ ایک پاکستانی کا 2019ء میں مختلف واقعات میں بہت سے پاکستانی مختلف شہروں میں قتل ہوئے یہ تقریباً سب مسلمان تھے تو اس کا مطلب ہے پاکستان میں مسلمانوں کا جینا بھی محال ہو گیا ہے جہاں تک ننکانہ صاحب کے واقعہ کا تعلق ہے یہ عمران نامی نوجوان اور ایک سکھ لڑکی جگجیت کور کی شادی کے باعث دو خاندانوں کا جھگڑا ہے گورنر پنجاب چودھری سرور نے دونوں خاندانوں کو گورنر ہائوس بلا کر صلح صفائی کرا دی تھی اورجگجیت کور کو دارالامان بھیج دیا گیا جس نے والدین کی بجائے اپنے شوہر عمران کے ساتھ جانے پر اصرار کیا۔ عمران سے پولیس اس پر جگجیت کور کو طلاق دینے مجھے دبائو ڈال رہی ہے اور اس دبائو کے باعث اس کے بھائی احسان کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ عمران سے جمعہ کے روز 35/30 افراد کو ساتھ ملا کر گوردوارہ کے سامنے مظاہرہ کر کے بھائی کو چھڑانے کے لیے پولیس پر دبائو ڈالنے کی کوشش کی مگر مقامی لوگوں نے نصف گھنٹے سے ہی کم وقت میں یہ مظاہرہ ختم کرا دیا اور سکھوں کو باہمی یکجہتی برقرار رکھنے کا یقین دلایا۔ مجھے کراچی میں بعض ذرائع سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق بھارتی میڈیا نے ان واقعات کو بھارت میں مسلمانوں اور سکھوں میں غلط فہمی پیدا کر کے کشیدگی پھیلانے کی کوشش کی تاہم بھارت کے مختلف شہروں سے یورپ امریکہ سمیت سکھوں نے ننکانہ صاحب رابطے کر کے اصل صورت جان لی اور بھارتی میڈیا کی سکھوں اور مسلمانوں کو لڑانے کی کوشش ناکام ہو گئی۔ دوسرے عالمی ذرائع ابلاغ کی جانب سے بھی پاکستان میں سکھوں کی جانب سے کسی احتجاجی ردعمل کے سامنے نہ آنے سے بھی بھارتی میڈیا کو شدید مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔ بھارت میں سکھوں کے ساتھ کیا ہو رہا ہے یہ بتانے یا دکھانے کی بھارتی میڈیا میں اخلاقی و صحافتی جرأت نہیں ہے۔ جہاں سکھوں کے لئے زمین تنگ کی جا رہی ہے۔ خود بھارتی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق کرتار پور جانے والے سکھوں کے خلاف معاندانہ کارروائیاں کی جا رہی ہیں۔ بھارتی امیگریشن حکام سکھوں کو وہاں لنگر نہیں لے جانے دے رہے یاترا کے مقام پر لنگر کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ سکھ گھروں کا بنا ہوا لنگر لے کر جاتے ہیں جس سے سکھ برادری میں اشتعال پھیلا ہوا ہے۔ دریں اثناء اترپردیش کے ضلع پیلی بھت میں سکھوں کو مذہبی جلوس نکالنے کی اجازت نہیں دی گئی بلکہ پانچ افراد کو ایف آئی آر میں نامزد کر کے گرفتار کر لیا گیا ہے اور 50 نامعلوم افراد شامل کئے گئے ہیں تاکہ بعد میں جیسے چاہیں گرفتار کر لیں۔ یہ سکھوں کے مخصوص دن ’’ندن‘‘ کے حوالے سے ’’نگر کرتان‘‘ کا جلوس تھا جسے دفعہ 144 کی خلاف ورزی قرار دیکر روک دیا گیا۔ جو شہریت بل کے نفاذ کے بعد لگائی گئی جبکہ جنازے اور مذہبی جلوس پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا۔ علاوہ ازیں مدھیہ پردیش میں انتظامیہ نے مسلمانوں سے اظہار ہمدردی کی پاداش میں 9 سکھوں کے گھروں کو مسمار کرنے کے ساتھ 200 ایکڑ پر لگی فصل بھی تباہ کر دی۔ ادھرجواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں آر ایس ایس کے نقاب پوش غنڈوں کے حملوں کے باعث دیگر یونیورسٹیوں میں بھی طلباء طالبات سراپا احتجاج بن رہے ہیں ۔ جن میں تشدد کا عنصر بڑھتا جا رہا ہے۔ سابق وزیر خزانہ یشونت سہنا نے انتہا پسند ہندوئوں کی جانب سے حملوں کو فاشزم قرار دیا ہے اور مطالبہ کیا ذمہ دار لوگوں کا سراغ لگا کر قانون کے حوالے کیا جائے۔ سابق وزیر داخلہ چدمبرم نے کہا کہ بھارت نہ صرف کشمیر کھو چکا ہے بلکہ مودی نے پورے بھارت کو کشمیر بنا دیا ہے اور ملک کے امن کو تہس نہس کر دیا ہے۔ بھارت جن حالات کا شکار ہو رہا ہے آر ایس ایس اور بھارتیہ جنتا پارٹی کا ہندو توا کا جنون اسے تباہ کر کے چھوڑے گا۔
سکھ، پاکستان میں غیر محفوظ یا بھارت میں؟
Jan 09, 2020