جمعرات‘ 13؍ جمادی الاول 1441ھ ‘ 9؍ جنوری2020 ء

وزیراعظم پارلیمنٹ کی غلام گردشوں میں راستہ بھول گئے
یہ ایوان اقتدار کی غلام گردشیں ہوتی ہی بڑی ظالم ہیں۔ ان کی بھول بھلیوں میں کھو کر اکثر حکمران راستہ بھول جاتے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کئی حکمران انہی غلام گردشوںمیں جان کی بازی ہار گئے اور کئی تاج و تخت سے محروم ہو گئے۔ یہی غلام گردشیں بادشاہ گروں کی سرگوشیوں‘ سازشوں کا مرکز بھی ہوتی ہیں۔ چلیں چھوڑیں یہ تو پرانی باتیں ہیں۔ ہم نے کب ان سے سبق حاصل کیا یا عبرت پکڑی۔ ہم تو بس مزے کے لئے تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں۔ خبر یہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان گزشتہ روز پارلیمنٹ کی راہداریوں میں رستہ بھول گئے۔ ویسے آپس کی بات ہے اگر وہ پارلیمنٹ آتے رہتے تو انہیں یہ راہیں ازبر ہوتیں۔ وہ بھی تو کبھی کبھار اس ایوان کا رخ کرتے ہیں۔ اس لئے اب ان کا اپنے سکیورٹی آفیسر سے بے ساختہ یہ پوچھنا کہ مجھے کہاں لے جا رہے ہو میں کہاں ہوں۔ محسوس ہوتا ہے کہ انہیں اپنے راہبروں کا پتہ ہے جبھی تو باوردی آفیسر سے راہ پوچھنے لگے حالانکہ وہ وزیر داخلہ سے سرگوشیاں کرتے کرتے نجانے کہاں سے کہاں جا نکلے تھے۔ اس حساب سے تو انہیں اعجاز شاہ سے کہنا چاہئے تھا کہ ’’یہ کہاں آگئے ہم یونہی ساتھ ساتھ چلتے‘‘۔ یہ تو شکر ہے اس وقت سب ایک پیج پر ہیں ورنہ ان راہداریوں میں کھو جانے والوں کی یاد میں ان کے چاہنے والے ہمیشہ…؎
مقام فیض کوئی راہ میں جچا ہی نہیں
جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے
کہتے ہیں خان صاحب کو چاہے کہ وہ دوران اقتدار اپنی آنکھیں اور کان کھلے رکھیں۔ کسی کی باتوں میں سرگوشیوں میں اتنا نہ کھو جائیں کہ ان کی اپنی راہ کھوٹی ہو۔
٭…٭…٭
قلعہ عبداللہ میں 13کروڑ کی لاگت سے بنا ڈیم پہلی بارش میں بہہ گیا
بلوچستان کی محرومیوں کا رونا رونے والے ذرا اس طرف بھی تو توجہ دیں جن کی مہربان صوبائی حکومت کی مہربانیوں سے ایسے درجنوں کاغذی ڈیم صوبے کے طول و عرض میں موجود ہیں۔ بلوچستان میں ویسے ہی بارش کم ہوتی ہے۔ اس کے باوجود سیلابی پانی محفوظ رکھنے کے لئے یہ ڈیم بنائے جاتے ہیں۔ مگر افسوس جہاں جہاں یہ ڈیم ہیں وہاں ذرا سی معمولی بارش کا صدمہ بھی یہ ڈیم برداشت نہیں کرتے اور ریت کی دیوار کی طرح پانی کے ریلے کے ساتھ بہہ جاتے ہیں۔ یہ ڈیم جن ٹھیکیداروں نے بنائے ہیں وہ کون ہیں۔ جنہوں نے بنائے ٹھیکہ دیا وہ کون ہیں۔ سیمنٹ کی جگہ ریت کی دیوار کیسے بنی۔ ناقص میٹریل کس نے سپلائی کیا سب جانتے ہیں۔ دفتری ریکارڈ میں ان شرفا کے نام درج ہیں۔ کیا حکومت میں ہمت ہے کہ وہ ان کے خلاف کارروائی کرے۔ ہم تو اس پر صرف
کس منہ سے تیرا نام لوں دنیا کے سامنے
آئے گا کون ریت کی دیوار تھامنے
ہی کہہ سکتے ہیں۔ یہ وہ جونکیں ہیں جو بلوچستان کا خون چوس رہی ہیں۔ یہ آسمان سے نہیں اترے۔ کہیں اور سے نہیں آئے۔ یہ سب اسی صوبے کے سپوت ہیں۔ بلوچستان پر اس وقت ’’باپ‘‘ کی حکومت ہے۔ وہ ہی ذرا عوام کو اولاد سمجھ کر ان کے مسائل پر توجہ دے اور قلعہ عبداللہ میں ریت سے تعمیر ہونے والے ماچکہ ڈیم کے بارش سے بہہ جانے کی تحقیقات کر کے اس کے ذمہ داروں کو انار کلی کی طرح زندہ اس ڈیم کی دیواروں میں چن دے۔
٭…٭…٭
بے نامی جائیدادوں پر میپکو ٹیسٹ انسپکٹر کی بیوی بھی گرفتار
یہ ہوئی نہ بات۔ شوہر اکیلا ہر کام کا ذمہ دار نہیں ہوتا جو کماتا ہے بچاتا ہے وہ لاکرگھر والی یا گھر والوں کو دیتا ہے۔ اب ان کو بھی تو چاہئے کہ وہ معلوم کریں کہ ایک معمولی تنخواہ والا ملازم کروڑوں کی رقم کہاں سے لاتا ہے۔ کروڑوں کی جائیدادیں کیسے بناتا ہے۔ مگر ایسا کوئی نہیں کرتا۔ سب اس کمائو پوت کے صدقے واری جاتے ہیں۔ اب اگر ہر کرپٹ افسر اور سرکاری ملازم کے ساتھ اس کی بیوی یا دیگر گھر والے جو اس حرام مال میں برابر شریک رہے ہیں حصہ دار ہیں ان کو بھی پکڑ کر مال ہضم شدہ نکلوایا جائے تو بہت سے لوگوں کو عبرت ہو گی اور وہ اپنی جان بچانے کی فکر کریں گے۔ میپکو کے ٹیسٹ انسپکٹر کے پاس ملازمت سے پہلے پھوٹی کوڑی بھی نہیں تھی پھر دیکھتے ہی دیکھتے اس نے 17 کروڑ کی جائیداد وہ بھی بے نامی بنا لی۔ بیوی کے ساتھ مل کر بنکوں سے 14 کروڑ روپے اِدھر اُدھر منتقل کئے۔ گویا بیگم صاحبہ بھی اپنے صاحب کے ساتھ ان خفیہ معاملات میں برابر کی شریک تھیں۔ اب نیب حکام نے آمدن سے زیادہ اثاثے بنانے کے الزام میں موصوفہ کو گرفتار کر لیا۔ اس لیے باقی بیگمات ہوشیار ہو جائیں جو شوہروں کی حرام کی کمائی پر عیش کرتی پھرتی ہیں۔ اب جلد یا بدیر ان کی بھی باری آنے والی ہے۔ اس لئے ہم ’’قیامت آنے والی ہے ذرا ہوشیار ہو جائو‘‘ کہہ کر ان کو بیدار کر سکتے ہیں تاکہ
’’پھر نہ کہنا ہمیں خبر نہ ہوئی‘‘
٭٭٭٭٭
عام آٹے کی قلت۔ 15 کلو کا سپر آٹا متعارف
یہ عجب ترقی ہے ہمارے موجودہ دور میں جس کی بہترین عکاسی کسی شاعر نے یوں کی ہے …؎
یہاں لباس کی قیمت ہے آدمی کی نہیں
مجھے گلاس بڑے دے شراب کم کر دے
سو اس فلسفے پر عمل کرتے ہوئے محکمہ خوراک 20 کلو کی جگہ سپر فائن آٹے کے نام پر 15 کلو کا تھیلا بازار میں لا رہی ہے جس کی قیمت بھی سُپر یعنی 680 روپے ہے جبکہ 20 کلو کا تھیلا 808 روپے کا تھا۔ اطلاع یہ ہے کہ صوبے میں آٹے کی قلت ہے۔ یہ بذات خود ایک لطیفہ ہے۔ کیونکہ اگر پنجاب جیسے زرعی صوبے میں جہاں گندم بکثرت پیدا ہوتی ہے۔ گودام گندم سے بھرے پڑے ہیں۔ آٹا ملیں دن رات چل رہی ہیں، پھر بھی یہ کہا جا رہا ہے کہ آٹا کی قلت ہے تو اس پر کوئی عقل مند ہی یقین کرے گا۔ ہم جیسے کم عقلوں کے پلے یہ بات نہیں پڑ رہی۔ بجائے اس کے کہ آٹا سمگل ہونے کے ناجائز غیر قانونی راستے بند کر کے صوبے کے عوام کو غریبوں کو ریلیف دیا جاتا۔ الٹا آئے کی مقدار کم کر کے تھیلے کا سائز کم کر کے عوام کی جیب کاٹنے کی نئی کوشش ہو رہی ہے۔ ایسے نت نئے افلاطونی مشورے دینے والے کون لوگ ہیں۔ اس کا حکومت پنجاب کو ہی پتہ ہو گا۔ مگر کیا حکومت پنجاب اپنے غریب عوام کی طرف سے بھی غافل ہو گئی ہے کہ ایسے غریب کش منصوبوں کی اجازت دے رہی ہے۔ محکمہ خوراک والے خدا کا خوف کھائیں آٹے کی قلت دور کر کے قیمت میں بھی کمی لائیں۔ ورنہ بارش کے پہلے قطرے کی صورت میں گزشتہ روز لاہور میں سول سوسائٹی کی طرف سے مہنگائی کیخلاف مظاہرہ بھی ہو چکا ہے۔
٭٭٭٭٭

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...