عالمی اور علاقائی قیادتیں سر جوڑ کر بیٹھیں اور دنیا کو ممکنہ تباہی سے بچائیں

ایران کی جوابی کارروائی‘ عراق میں امریکی فوجی اڈوں پر بیلسٹک میزائل حملہ‘ 80 امریکی فوجیوں کی ہلاکت کا دعویٰ
ایران نے قدس فورس کے کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی کی امریکی ڈرون حملے میں ہلاکت کا بدلہ لینے کیلئے گزشتہ روز عراق میں امریکی فوجی اڈوں پر بیلسٹک میزائلوں سے حملہ کردیا۔ اس حملے میں ایک درجن سے زائد میزائل داغے گئے۔ ایران کے سرکاری ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق اس حملے میں 80 امریکی فوجی ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے۔ امریکی پینٹاگون نے بھی عراق میں امریکی فوج کے اڈے پر حملے کی تصدیق کردی ہے جبکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر اپنے بیان میں کہا کہ ایران نے عراق میں موجود دو امریکی فوجی اڈوں کو نشانہ بنایا ہے‘ ان حملوں کے باعث ہونیوالے نقصانات کا تخمینہ لگایا جارہا ہے تاہم سب کچھ ٹھیک ہے۔ صدر ٹرمپ کے بقول امریکی فوج سب سے طاقتور ہے۔ دوسری جانب عراق نے بھی ان حملوں کی تصدیق کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ ان حملوں میں کوئی عراقی باشندہ ہلاک یا زخمی نہیں ہوا۔ ایران کے سرکاری ٹی وی نے پاسداران انقلاب کے ذرائع کے حوالے سے یہ خبر بھی دی ہے کہ اگر امریکہ نے جوابی کارروائی کی تو ایران کی نظر خطے میں موجود 100‘ اہداف پر ہے اس لئے امریکہ جوابی کارروائی سے باز رہے۔
ایرانی پاسداران انقلاب نے امریکہ کو یہ پیغام بھی دیا ہے کہ وہ مزید فوجی ہلاکتیں نہیں چاہتا تو خطے سے نکل جائے۔ ایرانی سرکاری ٹی وی کے مطابق پاسداران انقلاب نے امریکہ کو دوبارہ جارحیت کی صورت میں شدید ردعمل کی دھمکی دیتے ہوئے باور کرایا کہ اسکے فوجی اڈوں پر میزائل حملہ جنرل قاسم کی ہلاکت پر جوابی کارروائی ہے۔ ٹی وی رپورٹ کے مطابق اس حملے کا نام اپریشن سلیمانی رکھا گیا اور ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے اپریشنز ہیڈکوارٹرز میں بیٹھ کر اس کارروائی کی سربراہی کی۔ ایرانی میڈیا کے مطابق عراق میں امریکی ایئربیس پر 30 میزائل داغے گئے۔ حملے میں عراقی فوجی اڈوں عین الاسد‘ اربیل اور تاجی کیمپ کو نشانہ بنایا گیا۔ پاسداران انقلاب نے یہ بھی اعلان کیا کہ دشمن کے فوجی اڈے تباہ کرنے کیلئے ہائی الرٹ ہیں اور اگر امریکہ نے حملہ کیا تو اس کا جواب امریکہ کے اندر دینگے اور اسرائیل کو بھی نشانہ بنائیں گے۔ ہم امریکہ اور اسرائیل کو ایک دوسرے سے الگ نہیں سمجھتے‘ اسرائیلی شہر حائفہ اور تل ابیب کو تباہ کرکے رکھ دینگے۔ اسی طرح ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے اپنے بیان میں کہا کہ ایران کی جانب سے امریکہ کو مناسب جواب دے دیا گیا ہے۔ اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت ایران نے امریکہ کیخلاف اپنے دفاع میں کارروائی کرتے ہوئے اسی فوجی اڈے کو نشانہ بنایا جہاں ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کو ہدف بنایا گیا تھا۔ انکے بقول ہم جنگ بڑھانا نہیں چاہتے تاہم جارحیت کا مقابلہ کرینگے۔
عالمی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق امریکی فوجی اڈوں پر ایران کے میزائل حملوں کے بعد وائٹ ہائوس میں ہلچل پیدا ہوگئی ہے اور اس حملے کے فوری بعد امریکی صدر ٹرمپ کی زیرصدارت امریکہ کی قومی سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس ہوا جس میں وزیر دفاع مارک الیسپر‘ وزیر خارجہ مائیک پومپیو اور دوسرے اعلیٰ حکام نے شرکت کی اور جوابی کارروائی کی ممکنہ حکمت عملی کا جائزہ لیا۔ دوسری جانب ایران امریکہ بڑھتی کشیدگی کے پیش نظر امریکہ نے عراق‘ ایران اور خلیجی ممالک کیلئے اپنی سول پروازوں پر پابندی لگا دی ہے اور امریکی سفارتکاروں سے کہا گیا ہے کہ وہ ایرانی اپوزیشن کے لوگوں سے ملاقاتوں سے گریز کریں۔ امریکی وزیر خارجہ کے بقول ایسی ملاقاتیں کشیدگی میں اضافے کا باعث بن سکتی ہیں۔ امریکی کانگرس کی سپیکر نینسی پلوسی کے مطابق امریکہ اور دنیا ایک اور جنگ کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ انہوں نے ٹرمپ انتظامیہ سے غیرضروری اشتعال انگیزی ختم کرنے کیلئے کہا۔
یہ امر واقع ہے کہ امریکی ٹرمپ انتظامیہ کے دور میں امریکہ‘ ایران تعلقات سردمہری اور دوطرفہ کشیدگی سے دوچار ہوئے ہیں۔ امریکی صدر اوبامہ نے اپنے دوسرے دور حکومت میں امریکہ ایران کشیدگی ختم کرنے کیلئے معاملہ فہمی سے کام لیا اور ایران کے ساتھ ایٹمی کلب کا ایٹمی عدم پھیلائو کا معاہدہ کرادیا چنانچہ ایران نے ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری سے رجوع کرلیا اور امریکہ نے ایران پر عائد کی گئی اقتصادی پابندیاں ختم کردیں مگر ڈونلڈ ٹرمپ نے اقتدار میں آتے ہی جہاں پاکستان کے ساتھ سردمہری کی فضا پیدا کی اور اسے پابندیوں کی زد میں لانے کی دھمکیاں دیں وہیں ٹرمپ انتظامیہ نے ایران کے ساتھ معاہدے پر بھی نظرثانی کا آغاز کر دیا اور امریکہ کو اس معاہدے سے نکال لیا چنانچہ امریکہ ایران کشیدگی کا بھی احیاء ہوگیا۔ بے شک یہ امریکہ اور ایران کا دوطرفہ معاملہ تھا مگر اس کشیدگی کے مشرق وسطیٰ اور پورے خطے پر بھی منفی اثرات مرتب ہونے لگے۔ امریکہ نے ایران پر دوبارہ پابندیاں عائد کردیں جس کے باعث پاکستان ایران گیس پائپ منصوبے پر پاکستان کی جانب سے پیش رفت بھی ممکن نہ رہی۔ یہ طرفہ تماشا ہے کہ ایران کے چاہ بہار پورٹ کے حوالے سے بھارت کے ساتھ تجارتی معاہدے ہوئے مگر امریکی جبین نیاز پر کوئی شکن پیدا نہ ہوئی‘ اسکے برعکس پاکستان کو ایران کے ساتھ کسی قسم کے معاہدے سے گریز کی ڈکٹیشن ملتی رہی۔ سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں منعقدہ اسلامی نیٹو سربراہی کانفرنس میں تو امریکی صدر ٹرمپ نے ایران کو اپنا دشمن اول قرار دے دیا اور بالخصوص مسلم ممالک کو اس سے قطع تعلق کرنے کی تلقین کی۔ اس حوالے سے ٹرمپ انتظامیہ نے مسلم ممالک کے مابین فروعی اختلافات سے بھی فائدہ اٹھایا جبکہ اس سے ایران کیلئے اپنے ایٹمی پروگرام پر کام جاری رکھنے کا جواز نکل آیا اور امریکہ اور ایران میں کشیدگی بڑھتے بڑھتے ایرانی اہم کمانڈر قاسم سلیمانی پر پانچ روز قبل عراق میں امریکی ڈرون حملے پر منتج ہوئی۔ اس حملے میں انکی ہلاکت پر دنیا بھر میں جو ردعمل سامنے آیا‘ امریکہ کو اسے بہرصورت پیش نظر رکھنا چاہیے تھا مگر واشنگٹن انتظامیہ نے ایران کیخلاف اشتعال انگیز بیانات اور کارروائیوں کا سلسلہ جاری رکھا جس سے عملاً تیسری عالمی جنگ کی فضا ہموار ہوتی نظر آئی۔ خود عراق کی جانب سے امریکی حملے پر سخت ردعمل سامنے آیا اور عراقی وزیراعظم نے جنرل سلیمانی کے جنازہ میں شریک ہو کر ایران کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا اور پھر انکے ایماء پر عراقی پارلیمنٹ نے عراق سے امریکی فوجوں کے انخلاء کی قرارداد بھی منظور کرلی۔
جنرل سلیمانی کی ہلاکت پر پورے ایران میں پیدا ہونیوالے سخت ردعمل کا اس سے ہی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ انکی میت ایران پہنچنے سے انکی تدفین تک پوری ایرانی قوم سڑکوں پر نکل آئی جبکہ انکے جنازہ کے بعد بھگدڑ مچنے سے گزشتہ روز 56 افراد جاں بحق سینکڑوں زخمی ہوئے۔ غم و غصہ کی اسی کیفیت میں ایرانی پاسداران انقلاب کی جانب سے گزشتہ روز عراق میں امریکی فوجی اڈوں پر بیلسٹک میزائل برسائے گئے ہیں اور جوابی امریکی کارروائی کی صورت میں اس سے بھی سخت ردعمل کا عندیہ دے دیا گیا ہے۔ یہ صورتحال علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کے حوالے سے یقیناً پوری عالمی برادری کیلئے لمحۂ فکریہ ہے۔ اگر امریکہ ایران کشیدگی اسی طرح بڑھتی رہی تو یہ یقیناً عالمی جنگ پر منتج ہوگی جس کیلئے چین نے پہلے ہی امریکہ کو متنبہ کردیا ہے کہ وہ خطے میں طاقت کا بے جا استعمال نہ کرے۔
پاکستان کی جانب سے اگرچہ امریکہ ایران ممکنہ جنگ میں غیرجانبدار رہنے اور کسی کے ساتھ فریق نہ بننے کا باضابطہ اعلان کیا جا چکا ہے اور یہ بھی باور کرایا جا چکا ہے کہ پاکستان کسی کیخلاف اپنی سرزمین استعمال ہونے کی قطعاً اجازت نہیں دیگا۔ تاہم امریکہ ایران باقاعدہ جنگ شروع ہونے کی صورت میں اسکے منفی اثرات ہم پر بھی مرتب ہونگے اور ممکنہ طور پر خطے کے تمام ممالک اس جنگ کی لپیٹ میں آئینگے اس لئے آج امریکہ ایران کشیدگی ختم کرانے کیلئے عالمی اور علاقائی قیادتوں کے مدبرانہ کردار کی ضرورت ہے۔ امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے ایران کے ساتھ کشیدگی میں کمی کیلئے وزیراعظم عمران خان کے سفارتکاری کے مثبت کردار کا پہلے ہی اعتراف کیا جا چکا ہے اس لئے اس تناظر میں اب انکے قائدانہ کردار کی ضرورت ہے۔ وہ پہلے ہی دنیا کے مختلف ممالک سے اس حوالے سے روابط قائم کرچکے ہیں۔ اگر وہ امریکہ کو مزید جارحیت سے گریز پر قائل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو اس سے ممکنہ طور پر تیسری عالمی جنگ کا خطرہ ٹل سکتا ہے۔ اگر یہ جنگ ہوئی تو لامحالہ ایٹمی جنگ ہوگی جس سے اس کرۂ ارض پر کچھ بھی نہیں بچے گا۔ اب فریقین کی جانب سے ہوشمندی سے کام لینے کی ضرورت ہے جس میں مسلم قیادتوں کو وزیراعظم ملائشیا مہاتیر محمد کی اس بات کو بھی پیش نظررکھنا ہوگا کہ اب مسلم امہ کے اتحاد کا وقت آگیا ہے ورنہ کوئی بھی محفوظ نہیں رہے گا۔ اس صورتحال میں اب اقوام متحدہ‘ او آئی سی اور یورپی یونین سمیت تمام نمائندہ عالمی اور علاقائی اداروں کے ہنگامی اجلاس طلب کرکے ایران امریکہ کشیدگی ختم کرانے کی کوشش کی جائے جو فی الحقیقت علاقائی اور عالمی امن و سلامتی یقینی بنانے کی کوشش ہوگی۔

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...