قوموں کی زندگی میں مصائب اور آلام تاریخ کا حصہ رہے ہیں اس موقع پر اولوالعزم جدوجہد اور اچھے وقتوں کی امید ہی تقدیر پلٹ سکتی ہے ایک کہاوت ہے کہ ایک سلطنت کے والی کا گذر ایک ایسی جگہ سے ہوا جہاں ایک دیوانہ خاک میں لوٹ پوٹ زارو قطار آسمان کی طرف انگلی اٹھاے کہہ رہا تھا وائے افسوس جب بیداری کا وقت تھا میں سویا رہا ۔
صد افسوس والی نے اس سے پوچھا کہ تیری بابت کیا معاملہ ہے اس نے کہا یاد رکھ اے غافل انسان جب تک ذات کے اندر بیداری کا عالم نہ ہو تو اپنے بھی قدموں کی چاپ سنائی نہیں دیتی اور جب چاپ گم ہوجائے تو اپنے ہی پاؤں گمراہی کے راستے کی طرف پڑنے لگتے ہیں والی نے قدرے حیرانی اور پریشانی میں وزیر کی طرف دیکھا وزیر نے کہا جانے دیجئے دیوانہ ہے لیکن والی کی روح کو قرار نہ تھا اس نے ایک درویش سے سارا ماجرا بیان کیا۔
اس نے کہا اے ریاست کے والی اپنے حال سے واقف رہ تاکہ تجھے اندر کی چاپ سنائی دے جو وقت گذر گیا وہ تیرے کام کا نہیں مستقبل وسوسوں اور اندھیروں میں گھرا ہوتا ہے تیرے پاس حال ہے اسے بے حال نہ کر اور رعایا کے حال کی فکر کر ایک مغربی مفکر ہیگل نے قوموں کے عروج وزوال پر بحث کرتے ہوئے لکھا ہے کہ جو بستیاں عرصہ دراز تک آفات مصائب اور بیماریاں جھیلتی رہیں اور بیرونی جارحیت کا مقابلہ کرتی رہیں ان میں جنگجوانہ صلاحیتیں ان بستیوں سے زیاد تھیں جو باہمی ظور پر نفاق کا شکار ہیں ہمت لگن اور جوانمردی کے ساتھ اگرامید اور ایمان کامل کو جوڑ دیا جائے تو مایوسی جیسے عناصر کی حوصلہ شکنی ہونے لگتی ہے۔
ایک کالم نگار نے لکھا کہ نیا سال اگلے دن کی فقط تبدیلی کا نام ہے جبکہ بنظر غائر دیکھا جائے گذشتہ سال کے اختتام اور نئے سال کا سرا ہم دعاؤں کی صورت میں اس امید سے باندھ دیتے ہیں جن سے مستقبل کا تانا بانا بن دیتے ہیں اور پچھلے سال کی کوتاہیوں کا ازالہ کرنے کا وعدہ کرتے درحقیقت دسمبر وعدوں ارادوں اور وفا کا موسم بن جاتا اور موسم میں ارادوں کے بیج بونے سے پھل پھول پیدا ہوسکتے ہیں۔ اگر نیت میں اخلاص ہو اور اگر میں باوضو ہو تو نیک مقامات کی سیاحت بھی زیارت بن جاتی ہے اور اگر نیت میں ہی خلوص نہیں تومستقبل کے خواب دیکھنا ایسا ہی ہے جیسے وقت کے ساحل پر دلدلی ریت میں خواہشوں کے بیج بو دئیے جائیں۔
وطن عزیز پر کڑا وقت ہے۔ کورونا نے معاشی سیاسی اور معاشرتی زندگی کو نگل لیا ہے لیکن یہ وقت بھی گذر جاے گا ۔
بقول حضرت واصف علی واصف آنے والے دن کمال کے دن ہیں عظمت ذوالجلال کے دن ہیں ایک بار محمود غزنوی نے اپنے غلام ایاز سے کہا کہ میری انگوٹھی پر ایسا جملہ لکھ دو کہ اگر مین غمگین ہوں تو خوش ہو جائوں اور اگر خوش ہوں تو غمگین ہوجاؤں غلام ایاز نے لکھ دیا یہ وقت بھی گذر جائیگا اور تاریخ کا یہ مسلمہ اصول ہے کہ جہاں وقت خوشیوں کی نوید دیتا ہے وہاں اچھا وقت یہ تنبیہ بھی کرتا ہے کہ برے وقتوں کے لئے اقدامات ضروری ہیں اور یہ وہ بیداری ہے کہ اپنے قدموں کی چاپ اپنی ذات کے اندر صاف سنائی دیتی ہے۔
٭…٭…٭
یہ وقت بھی گزر جائیگا
Jan 09, 2021