کتنے رنگ تیری ذات کے

سنا ہے کہ شاعری پورا انسان مانگتی ہے، صحافت جیسے خاردار رستوں کے مسافرکاپھولوں جیسی نازک شاعری کو ہاتھوں میں تھام کر عازمِ سفر رہنا یقینا" قابل تحسین ہے۔ ناقابل یقین ہے اس لئے نہیں کہوں گی کہ اپنے آپ اور اپنے کام سے Commitmentہمیشہ کامیاب اور نمایاں جگہ بنانے والوں کا وصف ہے۔ اگر صحافت کی بات کی جائے تو سعید آسی صاحب کے نام اور کام سے کون واقف نہ ہوگا۔ زندگی اسی دشت کی سیاحی میں بسر کرڈالی جبکہ 1970ء کی دہائی سے قلمی سفر کا بھی آغاز کردیا۔ اتنے مشکل پیشہ سے وابستہ رہ کر شوقِ سخن کی آبیاری نے آج ایک گلستان مہکا رکھا ہے، کلام ِ سعید میرے ہاتھوں میں ہے۔ خوبصورت سرورق اور چھپائی کی اس کتاب کے اندر شاعر کا جذبوں بھرا سمندرٹھاٹھیں مار رہا ہے۔ سعید آسی صاحب نے نہ صرف اْردو زبان میں شاعری کے جوہر دکھائے بلکہ پنجابی زبان پر اْنکی گرفت اس سے بھی زیادہ پختہ نظرآتی ہے۔ ہرروز ایک پر مغز اداریہ لکھنا اور اْس پر شاعری کے شوق کو وقت دینا ایک جاندار اور بھرپور شخصیت کی عکاسی کرتا ہے۔ اس سے قبل سعید آسی صاحب کے تین مجموعہ جات سامنے آچکے ہیں جن میں اْردو مجموعہ کلام"تیرے دکھ بھی میرے دْکھ ہیں" پنجابی مجموعہ کلام"سوچ سمندر" اور پنجابی قطعات"رمزاں" شامل ہیں۔اب اس تمام کلام کو یکجا کرکے کلام ِ سعید کی صورت میں قارئین کے سامنے پیش کردیا گیا ہے۔ پیشہ ورانہ مرحلہ وار سفر کے ساتھ شاعری کا مرحلہ وار سفر بھی خاصا دلچسپ ہے اور نوجوان نسل کیلئے مثال بن گیا ہے۔
سعیدآسی صاحب گزشتہ14برس سے نوائے وقت کے ایڈیٹوریل رائٹر ہیں جبکہ1981ء سے نوائے وقت کے ساتھ وابستہ ہیں۔ اپنی وابستگی اور محبت کی یہ بھی مثال ہے کہ پھر یہیں کے ہورہے اور دوسروں کے لاکھ جتن کے باوجود نوائے وقت سے اپنی محبت اور وفا نبھا رہے ہیں۔سب ایڈیٹر سے ڈپٹی ایڈیٹر اور رپورٹرسے چیف رپورٹر تک فرائض کو خوب جانفشانی سے نبھایا جبکہ کالم نگاری اور تجزیہ نگاری میں بھی کمال مہارت رکھتے ہیں۔پرنٹ میڈیا کے ساتھ الیکٹرک میڈیا پر بھی متحرک نظرآتے ہیں۔ اگرچہ سعید آسی صاحب کے فن اور تعارف سے ہر صاحب ِ علم اور صاحب ِ ذوق آشنا ہے۔ میں چاہتی ہوں کہ اْنکی شاعری کے کچھ نمونے پیش کروں تاکہ قارئین بھی اْنکے اس رْوپ سے محظوظ ہوسکیں۔ ملاحظہ کیجئے۔
شور میں کچھ سنائی دیتانہیں
راستہ بھی دکھائی دیتانہیں 
ہر کوئی اس کے ساتھ لگتا ہے
کوئی میری صفائی دیتانہیں 
غزلوں کیساتھ نظمیں بھی کلام سعید میں اپنے رنگ بکھیرتی نظر آتی ہیں۔ شاعری میں دل کی واردات اور اپنے جذبات کا احساس تو نظرآتاہی ہے جبکہ زمانے کے بے رحم رویوں اور بے اعتنائیوں کا چہرہ بھی خوب دکھایا ہے جبکہ دوست احباب، رشتہ داروں سے اپنی محبت کا اظہار بھی نظموں میں کیا ہے۔ بے شک شاعری خوبصورت ذریعہ اظہار ہے۔یہیں سے ایک اور نیا رنگ کروٹ لیتا ہے اور وہ مزدوروں کے دْکھ درد بیان کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
مجھ کو احساس ندامت بھی کہاں چھوڑے گا
آج یہ دِل تو جگر سوزِ فغان چھوڑے گا
آج کی مستی ورونق پہ ہنسی آتی ہے
اب تو انسان کی غفلت بھی ستم ڈھاتی ہے
شاعر، آئو سکھی، بین، چھوڑو کل کی بات، سْندر سپنے جاگے اور من میں پریت سمائی جیسی بے شمار نظمیں آپ کو اپنے سحر میں جکڑ لیتی ہیں۔ سعید آسی نے سفر نامہ میں بھی اپنے بہترین سفرنامہ نگار ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ سفرنامہ چین ، آگے موڑ جدائی کا تھا اور جزیرہ جزیرہ، سفرنامہ برونائی، انڈونیشیا اور مالدیپ پر مشتمل ہے جبکہ دو مجموعے کالموں کے بھی چھپ چکے ہیں۔حال ہی میں ایک اور سفرنامہ کس کی لگن میں پھرتے ہو شائع ہوچکا ہے۔ خیر ہم شاعری کی کلیات کی طرف آتے ہیں نظمیں پڑھتے ہوئے تھوڑا آگے بڑھیں تو پنجابی کلام نے خوب رنگ جمایا ہوا ہے۔
دل دی جھوک وساندا پھرناں
اپنا آپ لکانداپھرناں
اینویں سجنوں پاگل پن وچ
لوکاں نوں سمجھاندا پھرناں
پنجابی نظمیں بھی تروتازہ احساسات کی عکاسی ہیں جبکہ قطعات میں ہر قطعہ ایک الگ داستان اور کہانی پیش کررہا ہے۔چار لائنوں میں پورا منظر نامہ بیان کردیناآسان کام نہیں ہے۔ کتاب ہاتھ میں ہے اور کلام منتخب کرنا کتنا مشکل ہے کہ بے شمار قطعات اور غزلیں حوالہ دینے کیلئے پسند کئے بیٹھی ہوں۔ چند ایک لائنیں پیش کرنے سے تسلی نہیں ہوتی۔ کتاب کو پڑھنا مصنف کے کام اور شاعری سے حظ اْٹھانے کیلئے ضروری ہے۔ اللہ سعیدآسی صاحب کو مزید ہمت عطا کرے تاکہ وہ اپنے تمام راستوں کے رنگ برنگے باغوں کی تاحیات آبیاری کرتے رہیں۔ بہت دْعائیں۔
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن