میں پونے بارہ بجے پہلے سے طے شدہ پروگرام کے مطابق تیار ہوکر رئوف طاہر صاحب کواُن کے گھر سے لینے کے لئے گاڑی میں بیٹھا ہی تھا کہ موبائل کی گھنٹی بجی ۔سکرین پراستادِ محترم مجیب الرحمن شامی صاحب کا نمبر تھا ۔کال رسیو کی تو بوکھلا گیا کیونکہ شامی صاحب کی آواز اُنکے الفاظ کا ساتھ نہیں دے رہی تھی۔دِل سے آواز نکلی یا اللہ سب خیر ہو۔ روتے ہوئے یہ الفاظ میری سماعت سے ٹکرائے ’’ آپ کے اُستاد چل بسے ‘‘۔ اِس وقت بھی میرا قلم میرے انگوٹھے کا ساتھ نہیں دے رہا اور آنسوئوں کی وجہ سے الفاظ دھندلے دکھائی دے رہے ہیں۔شامی صاحب کے الفاظ تھے یا پہاڑ جو مجھ پر آن گِرا تھا۔
اوہو! کیا لکھوں ۔میری آہیں بار بار میرے قلم کو روک دیتی ہیں۔کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ زندگی میں یہ دِن بھی آئے گا۔ اپنے جاںسے بھی زیادہ عزیز باپ جیسی ہستی کے بارے میں افسوسناک خبر سُن کر محسوس ہوا جیسے جسم سے جان نکل گئی ہو ۔
کا فی دیر سیٹ سے ٹیک لگا کر آنسوئوں کو روکنے کی کوشش کرتا رہا۔پھر اُمید جاگی کہ شاید یہ خبر غلط ہو جائے ۔فوراََ رئوف صاحب کے بڑے بیٹے آصف طاہر کو کال کی آصف کے منہ سے نکلا فاروق بھائی !بس پھر آصف کی سسکیاں سنائی دیں۔وہ جو ایک امید کی کرن تھی وہ بھی دم توڑگئی ۔ میرے والد نے جب مجھے گاڑی میں بے بس دیکھا تو گاڑی کے پاس آکر پوچھا خیریت‘ رئوف طاہر… اور والد کے گلے لگ کر زاروقطار رونے لگا ۔ پھر جیسے پورے گھر پر قیامت گزر گئی ۔ بڑی مشکل سے اپنے جذبات کو کنٹرول کرکے رئوف طاہر صاحب کے گھر پہنچا ۔ سوچ رہا تھا ا ٓصف بھائی اور کاشف کا سامنا کیسے کروں گا ۔ رئوف طاہر صاحب کے گھر پہنچنے سے پہلے شامی صاحب ، عمر شامی اور عثمان شامی پہنچ چکے تھے ۔وہ گھر جس کے دروازے پر ہمیشہ رئوف طاہر صاحب میرا انتظار کرتے تھے اور میں دور سے مُسکرا دیتا تھا آج وہاں انتظار کرنے والا کوئی بھی نہیں تھا۔دِل کو جیسے کِسی نے چیر دیا ۔
رئوف طاہر صاحب سے مِلنے کی خواہش بہت عرصہ سے تھی۔ ڈرتے ڈرتے کال کی دوسری طرف سے ایک گرجدار آواز آئی کون ؟میں نے اپنا تعارف کروایا اور کہا کیا آپ سے ملاقات ہو سکتی ہے۔ ضرور ہوسکتی ہے آپ میرے گھر واپڈا ٹائون تشریف لے آئیں۔بس پھر اُن سے نہ ختم ہونے استاد شاگرد ،باپ بیٹے ، بھائی بھائی اور دوستی کارشتہ شروع ہوا ۔اُنکے بارے میں جتنا لکھوں کم ہے۔
ہمیشہ نصیحت کرتے فاروق بیٹا! باوضو رہا کرو اللہ پاک رزق میں اضافہ کرتا ہے اور زیادہ سے زیادہ درود شریف بھی پڑھا کروہر مشکل آسان ہو جائے گی۔
نماز مغرب کے بعدجنازہ ادا کیا گیا ۔جنازے میں پورے کا پورا شہر امڈ آیا تھا ۔ہر آنکھ اشکبار تھی اور سب کا کہنا تھا آج ہم ایک درویش صفت انسان سے محروم ہو گئے ہیں۔ رئوف طاہر صاحب کے نقطہ نظر سے تو کسی کو اختلاف ہو سکتا ہے لیکن اُن کے کردار پر اُن کا دشمن بھی انگلی نہیں اُٹھا سکتا ۔بڑی سے بڑی بات بڑے حوصلے سے برداشت کر جاتے تھے ۔
رئوف طاہر صاحب کو اپنی اہلیہ کے بچھڑنے کا بہت دُکھ تھا۔ اکثر و بیشتر اُن کا میرے ساتھ ذکر کرتے تھے کہ آپ کی آنٹی بہت سمجھدار اور با وقار عورت تھی۔ انہوں نے میرے جدہ جانے کے بعد بچوں کی پرورش میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تاکہ بچوں کو میرے دور ہونے کی کمی محسوس نہ ہو۔
اتوار کی رات نو بجے مجھے کال کی رانا صاحب کہاں ہیں کافی دنوں سے ملاقات نہیں کدھر ہیں۔ سر کل ملاقات ہوگی۔ کل ڈیڑھ بجے ایک فائونڈیشن میں جانا ہے اُدھر سے فارغ ہو کر شامی صاحب کومِلنے کی کوشش کریں گے ۔پھرنوائے وقت کے ڈپٹی ایڈیٹر سعید آسی صاحب کو ملیںگے۔ آسی صاحب کے ساتھ اُن کی دوستی یونیورسٹی کے زمانے کی تھی جس کا مجھ سے بہت ذکر کرتے تھے ۔
رئوف طاہر صاحب جب جدہ میں تھے تو میاں نواز شریف بھی جلا وطن ہو کر جدہ پہنچ گئے وہاں سے میاں نواز شریف سے دوستی شروع ہوئی جو مرتے دم تک نبھائی جس کی جھلک اُن کے کالموں میں بھی نظر آتی تھی ۔
میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کے ساتھ اُن کی دوستی برابری کی سطح کی تھی ۔جائز بات کو لگی لپٹی بغیر اُنکے منہ پر کہہ دیتے تھے ۔جب رئوف طاہر صاحب کی اہلیہ کی وفات ہوئی تو بیگم کلثوم نواز اور وزیر اعظم میاں نواز شریف اُنکے گھر افسوس کرنے آئے تو میاں نواز شریف کی خواہش تھی کہ رئوف طاہر صاحب کو اسلام آباد میں اپنے ساتھ لے جائیں لیکن رئوف طاہر صاحب نے اسلام آباد جانے سے معذرت کرلی ۔شکریہ کے ساتھ بس یہ کہاکہ میں ایک کالم نگار کے طور پر ہی کام کرنا چاہتا ہوں۔
کیا کمال کی شخصیت تھی جس کے دِل میں اللہ تعالیٰ کی مخلوق کا درد کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا ۔کوئی جاننے والا ہو یا نہ جاننے والا ہوہر کسی کی مدد کرنااپنا فرض سمجھتے تھے۔کمال کا حافظہ تھا اِسی لئے انہیں انسائیکلو پیڈیا کہا جاتا تھا۔
ہرہفتہ میں اور وہ ساتھ ہوتے ۔اب زندگی کا ہر ہفتہ اُنکے بغیر گزارنا پڑے گا ۔میر ا تو جیسے باپ مجھ سے چِھن گیا۔سوچتا ہوں اب کِس کو اپنا ہمراز بنائوں ، کِس سے شکایت کروں ۔
کوئی آپ کی جگہ نہیں لے سکتا میرے پیارے رئوف طاہر۔