مسلم لیگ ن کے سیکرٹری جنرل احسن اقبال کاسیاست دانوں اور موجودہ سیاسی نظام پر تبصرہ بڑا مختصر اور جامع ہے۔ احسن اقبال کے مطابق سیاستدان کی زندگی صرف تین لفظوںسے جْڑی ہے۔ "ایم این اے " اور "ایم پی اے"۔ اگر یہ تین لفظ کسی سیاستدان کے ساتھ لگے ہوں تو وہ جتنا بھی نااہل ہو پھر بھی معزز ہے لیکن اگر یہ تین لفظ نام کیساتھ نہ لگے ہوں تو یہ سسٹم اٹھاکر باہر پھینک دیتاہے۔یہ دراصل سوچ کی نمائندگی ہے جو موجودہ پاور پالیٹکس کے وجود سے پیدا ہوئی ہے۔ جمہوریت اور آمریت کے لبادے اوڑھ کر ایک مخصوص طبقہ زیادہ سے زیادہ وسائل کے حصول کا خواہشمند ہے۔ سرمائے کے اشتراک سے وجود میں آنیوالے موجودہ نظام نے ایسی سیاسی جماعتوںکی بنیاد ڈالی ہے جو صرف اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے یکسو ہیں۔ خاص طور پر جنرل ضیاء الحق کے دور اقتدارمیں جو نئی سیاسی اور سماجی قدریں وجود میںآئیں اسکے گہرے اثرات ابھی بھی ہماری سوسائٹی پر بدرجہ اتم موجود ہیں۔ اسی سیاسی کلچر کے نتیجے میں جو قیادت سامنے آئی اس نے حصول اقتدار کیلئے تمام اخلاقی حدود کو تاراج کیا۔ 1988ء سے 1999ء تک بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کو دو دو بار وزارت عظمیٰ حاصل کرنے کیلئے بیک ڈور سازشوں کا سہارا لینا پڑا۔ دونوں نے ایک دوسرے کے خلاف کرپشن کے الزامات اورسازشیں تیار کیں۔ بے نظیر بھٹو کی پہلی حکومت ختم کرنے میں اس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب نواز شریف نے محاذ آرائی کی سیاست کی۔ نواز شریف کیلئے نرم گوشہ رکھنے والے صدر غلام اسحاق خان نے اٹھاون ٹو بی کا استعمال کر کے بے نظیر بھٹو کی حکومت کو چلتا کیا۔ اسکے بعد نواز شریف کی حکومت ڈھائی برس سے کچھ عر عرصہ زیادہ ہی چل سکی۔ مکافات عمل سامنے آیا، انہیں صدر غلام اسحق سے ان بن کی وجہ سے نواز شریف کو جانا پڑا اورساتھ غلام اسحاق خان کی سیاست کا باب بھی ہمیشہ کیلئے بند ہو گیا۔ 93 میں بے نظیر بر سر اقتدار آئیں تو پھر سے سازشوں کے مستقل تانے بانوں کے پیچھے نواز شریف کی سوچ موجود تھی۔ بے نظیر اپنے ہی بنائے گئے صدر کے ہاتھوں رخصت کرا دی گئیں۔ فاروق لغاری سمجھتے تھے کہ نواز شریف کو وزیر اعظم بنانے میں ان کا بڑا کردار ہے۔ اٹھاون ٹو بی کی طاقت کے ساتھ وہ خود کو بادشاہ گر سمجھنے لگے تھے۔ دوتہائی اکثریت رکھنے والے نواز شریف کیلئے ایسے صدر کو زیادہ دیر برداشت کرنا بہت مشکل کام تھا۔ نواز شریف نے تیرہویں ترمیم کے ذریعے فاروق لغاری کو ایک طاقتور صدر سے لاچار صدر میں تبدیل کر دیا۔ صرف گیارہ مہینے میں صدر لغاری واپس ڈیرہ غازی خان پہنچا دیئے گئے۔ اس دو تہائی اکثریت کے ذریعے عوامی مقدر بدلنے کی بجائے نواز شریف نے ان آئینی ترامیم میں دلچسپی لی جو انکے اقتدار کو دوام بخش سکیں۔ اداروں کو مستحکم کرنے کی بجائے انہیں تابع فرمان بنانے کی کو شش کی۔ چیف جسٹس سجاد علی شاہ کو دباؤ میں لانے کیلئے انکی جماعت کے کارکنوں نے سپریم کورٹ پر حملہ کیا۔ چیف آف آرمی سٹاف جنرل جہانگیر کرامت سے استعفیٰ لینے کی کوشش کی گئی۔ حالانکہ 1981ء سے 98 تک نواز شریف واحد لیڈر تھے جن کے ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے بے مثال تعلقات تھے۔ اسی بنا پر انہیں دو بار وزارت عظمٰی تک رسائی کا موقع بھی ملا۔ اِسی دہائی میں برسر اقتدار دونوں جماعتوں نے ایک دوسرے کیخلاف کرپشن کیسز بھی بنائے۔ انہی کرپشن کیسز کی پاداش میں آصف زرداری 8 سال تک جیل میں قید رہے۔ اس ساری لڑائی میں سب سے زیادہ نقصان پاکستان کے عوام کا ہوا جنہیں گڈ گورننس کے نام پر دھوکا دیا گیا۔ پرویز مشرف کے اقتدار کی طوالت دیکھ کر ان دونوں جماعتوں کو احساس ہوا کہ واپس اقتدار میں آنے کیلئے مفاہمت ضروری ہے۔ کرپشن الزمات اور محاذ آرائی کی سیاست کو ایک طرف رکھ کر پھر سے پرانے کھیل کو شروع کرنے کیلئے لندن میں میثاق جمہوریت کیا گیا۔ ایک جانب دونوں جماعتیں عوام کو دکھانے کیلئے جماعتیں میثاق جمہوریت کررہی تھیں تو دوسری جانب پرویز مشرف سے تین لفظ ( این آر او) لے رہی تھیں۔ جس کی بنیادی شرط ہی کرپشن کیسز کا خاتمہ تھا۔ لیکن 90 کی دہائی میں ایک دوسرے پر بنائے گئے کرپشن کیسز آج بھی ان قیادتوں کا پیچھا کر رہے ہیں۔ 2008ء میں سیاست میں واپسی سے مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کیلئے پارلیمان کا راستہ کھلا تو پارلیمانی سازشیں بھی لوٹ آئیں۔ 2018ء کے الیکشن کے بعد دونوں جماعتیں اقتدار سے باہر ہیں۔ گیم میں تیسرا کھلاڑی اُتار دیا گیا ہے جس نے ان دونوں کا کھیل چوپٹ کر رکھا ہے۔ اب کی بار پی ڈی ایم کے نام سے یہ جماعتیں جہوریت اور مفاہمت کا ڈھول پیٹ رہی ہیں۔ شاید انہیں پھر سے تین لفظوں ’’این آر او‘‘ کی ضرورت ہے۔ لیکن عوام اب سمجھدار ہو چکے ہیں اور کھوکھلے نعروں کا ساتھ نہیں دینگے۔ پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں عوامی مسائل حل کرنے میں اگر واقعی سنجیدہ ہیں تو پھر اس تین لفظی سیاسی نظام کو چھوڑ کر کوئی جامع قومی پروگرام پیش کریں اور اس کیلئے بغیر کسی سہارے کے حقیقی جدوجہد کریں۔
تین لفظی سیاست
Jan 09, 2021