حال ہی میں ٹیلی ویژن پر منعقدہ بحث و مباحثہ کی ایک نشست میں ایک طرف وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے پٹرولیم اور پروقار شخصیت کے مالک جناب ندیم بابر اور دوسری جانب انہی کی ہم پلہ اور ستائش آفرین ہستی سابق وزیراعظم جناب شاہد خاقان عباسی تشریف فرما نظر آئے۔ آیئے ذرا زیربحث موضوع اور معاملہ کا جائزہ لیتے ہیں تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی الگ ہوجائے۔ یہ اور بات ہے کہ اس میں دودھ کم اور پانی زیادہ ہے۔
معاون خصوصی برائے پٹرولیم نے یہ بے بنیاد دعویٰ کر ڈالا کہ سابق حکومت نے اپنے دور اقتدار میں پٹرولیم کی تلاش اور دریافت کیلئے کوئی عمل تحریک و ترغیب یا کوئی سکیم اور سہولت نہیں دی۔ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ 2014ء میں 50 نئے بلاک کی پیشکش کردی تھی جس میں سے 45 بلاک کیلئے کنٹریکٹ (Contract) وغیرہ کی تمام رسمی اور ضروری کارروائی مکمل کرنے کے بعد ان کیلئے منظوری بھی دے دی گئی تھی۔ بقیہ 5 بلاک کے سلسلے میں کسی بھی فریق نے کوئی دلچسپی ظاہر نہیں کی تھی۔ اس کے برعکس موجودہ حکومت نے صرف 20 شامل کئے ہیں جن میں سے 10 بلاک میں کسی بھی بڈر (Bidder) نے دلچسپی ظاہر نہیں کی۔ صاف عیاں ہے کہ معاون خصوصی برائے پٹرولیم یا تو ان حقائق سے لاعلم اور بے خبر تھے یا وہ دانستہ چشم پوشی سے کام لے رہے تھے۔
اسی طرح ایک دیگر معاملے میں معاون خصوصی برائے پٹرولیم نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ LNG سپلائی کرنے والوں کے نزدیک سلوپ آف برینٹ (Slope of Brent) کوئی قابل ذکر اور توجہ طلب مسئلہ نہیں ہے۔ ان کی بنیادی توجہ اور تقاضا ڈالر کی قیمت اور قوت ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس دعوے کے برعکس پوری کی پوری LNGانڈسٹری کی عالمی منڈی بنیادی طور پر اسی تصور یعنی سلوپ آف برینٹ (Slope of Brent) کے بل پر منحصر اور قائم ہے۔ با الفاظ دیگر LNG کی قیمت ایک خاص اور خصوصی فارمولے کے تحت برینٹ کروڈ آئل (Brent Crude Oil)کی قیمت اس پر منحصر اور اس سے منسلک ہے۔ یعنی اگر برینٹ کروڈ آئل (Brent Crude Oil) کی قیمت میں اتار چڑھائو کی کیفیت آئے تو اسی نسبت سے LNG کی قیمت میں اتار چڑھائو آتا ہے۔ حیرانی اس بات پر ہے کہ مذکورہ معاون خصوصی اس کے برعکس ایک غلط اور جھوٹا دعویٰ کررہے تھے جو کہ سمجھ سے بالاتر ہے۔
معاون خصوصی برائے پٹرولیم نے مزید دعویٰ کیا کہ LNG کی خرید کیلئے طویل المدتی معاہدے کرنا سابقہ حکومت کی جانب سے ناقص منصوبہ بندی کا سبب اور نتیجہ ہے۔ یہ کہتے ہوئے ان کی باتوں سے محسوس ہوا کہ ان کا مشورہ یہ ہے کہ طویل المدتی منصوبہ بندی کی قطعی ضرورت نہیں ہے اور کہ وہ سمجھتے ہیں کہ حاضر و موجود مارکیٹ سے LNG کی خریداری زیادہ موزوں زیادہ مناسب اور زیادہ سودمند ہے۔ ملک کی ایندھن کی ضروریات کیلئے ایک طویل المدتی منصوبہ بندی کیلئے ذمہ دار سرکاری اہلکار کی جانب سے ایسا بیان یا عندیہ دینا بہت عجیب اور حیران کن ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ موقع پر موجود قیمتیں تغیر پذیر اور ناقابل بھروسہ ہوتی ہیں اور کسی بھی طویل المدتی منصوبہ بندی کیلئے یقینی، قابل اعتبار اور ممدو معاون ثابت نہیں ہوتی۔
حال ہی میں پاکستان ایسی ہی صورتحال سے دوچار ہوچکا ہے۔ جب LNG کے تاجروں نے یہ محسوس کرتے ہوئے کہ پاکستان اس وقت ایک مشکل صورتحال سے دوچار ہے تو انہوں نے قیمتوں میں یکطرفہ ، غاصبانہ اور جابرانہ ردوبدل کے ذریعے خوب مال کمایا۔ اس امر میں کوئی شک نہیں کہ LNG پر انحصار کرنے والے کسی بھی ملک کو طویل المدتی منصوبہ بندی اور معاہدوں پر پوری اور بھرپور توجہ دینی چاہئے تاکہ قابل بھروسہ سپلائی کے ساتھ ساتھ قیمتوں کے ایک مربوط اور مستحکم نظام و انتظام کو یقینی بنایا جاسکے۔ یاد رہے کہ ماضی میں موقع پر موجود قیمتیں پورے تواتر اور تسلسل کے ساتھ طویل المدتی قیمتوں کی نسبت مقابلتاً کہیں زیادہ دیکھی گئی ہیں۔ ان میں کمی صرف ایک بار یعنی مئی 2019ء میں دیکھی گئی لیکن اس کے بعد کی صورتحال یہ ہے کہ مسلسل تغیر پذیر اور ناقابل اعتبار ہونے کے باعث ان میں مقابلتاً اضافہ ہی ہوتا چلا جارہا ہے۔ مزیدبرآں معاون خصوصی نے یہ بھی فرمایا کہ LNG کو اختتام پذیر گنجائش (Terminal Capicity) کے 70 فیصد سے استفادہ نہیں کیا گیا کیونکہ کوئی خریدار ہی نہیں تھا۔ یہ ایک غیرمعمولی دلیل ہے۔ حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ فیصلہ کرے کہ پاور پلانٹس (Power Plants) کو کس ایندھن (Fuel) پر چلانا ہے تاکہ اس کے مطابق ایندھن کی تقسیم کی جائے لہٰذا اگر LNG کی اختتام پذیر گنجائش (Terminal Capicity) سے استفادہ نہیں کیا گیا تو اس کی وجہ یہ ہے کہ حکومت نے LNGکی درآمد اور تقسیم نہیں کی۔ اس کے باعث پاور پلانٹس (Power Plants)کو مجبوراً تیل کے ایندھن پر چلانا پڑا۔ یاد رہے کہ LNG کے ذریعے پیدا کردہ توانائی کی لاگت تقریباً 9.50 روپے فی یونٹ ہے جبکہ تیل کے ذریعے پیداکردہ توانائی کی لاگت فی یونٹ تقریباً 12.00 روپے ہے۔
مذکورہ معاون خصوصی کے بیانات بلکہ غیر ذمہ دارانہ بیانات کی کئی اور مثالیں دی جاسکتی ہیں۔ تاہم مقصد کوتاہیوں کی نشاندہی اور ان کی طرف توجہ دلانا ہے۔ موصوف نے جو کچھ فرمایا وہ نہ صرف غلط تھا بلکہ ایک صریح جھوٹ تھا لیکن انہوں نے جس یقین، تیقن اور اعتماد کے ساتھ اس تمام تر جھوٹ کو سچ کا جامہ پہنا کر سامعین و حاضرین کے کانوں میں انڈیلا اس سے سامعین و حاضری کیلئے اس لاعلمی کو ہضم کرنا مشکل تھا۔
پروگرام کے بعد ماحصل کے طور پر یہ تاثر ابھر کر سامنے آیا کہ اگر آپ حقائق اور حقیقت سے لاعلم ، دلیل و برہان سے عاری ، جھوٹ اور دروغ گوئی سے چشم پوشی، جہالت، جہل اور تجاہل عارفانہ سے لیس ہونے کے ساتھ ساتھ، پراعتماد بھی ہیں تو آپ کا مدمقابل کیسا ہی صائب الرائے، صاحب علم و ادراق اورذی عزیز ووقار ہو تو بھی آپ ہر مباحثہ مذاکرہ مقابلہ، مجادلہ، مناظرہ اور مباہلہ با آسانی جیت جائیں گے۔ فتح آپ کی ہوگی اور آپ ہی مرد میدان ٹھہریں گے۔
سابق وزیراعظم جو ایک عمیق علمی بحث، ایک موثر مدلل، تعمیری اور مبنی برحقائق اظہار خیال کی توقع اور امید لے کر آئے تھے وہ نہایت بجھے بجھے ، بے بس اور شکست خوردہ نظر آئے۔ یہ بات تاہم یقینی ہے کہ آج کے حقیقی فاتح بھی وہی تھے۔ کیونکہ انہوں نے پوری سنجیدگی، اخلاص اور استقبال کے ساتھ صرف سچ اور خالص سچ کا علم تھامے رکھا اور اسے سرنگوں نہیں ہونے دیا۔