اگردعوئوں اور وعدوں کا نام ہی فنِ سیاست ٹھہرا ہے تو اس فن میں پاکستانی سیاسی جماعتیں صف اول میں جگہ پاتی ہیں۔ناکامیوں اور بد نامیوں کے دریا میں ڈوبتی کنارا ڈھونڈنے والی جماعتیں تیراکی کے فن میں ماہر ہونے کا دعوی کر نے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کر تیں۔ پیپلز پارٹی کے دور اقتدار کو سندھ میں بارہ سال سے زائد کا عرصہ ہو چلا ہے گنتی کے چند نمائشی منصوبوں کو چھوڑ کر پورا سندھ چیخ چیخ کر صوبائی حکومت کی ناکامیوں کی گواہی دے رہا ہے۔سڑک، سیوریج، صاف پانی اور بجلی جیسی بنیادی ضروریات سے محرومی توسندھ باسیوں کا مقدر بنا دی گئی ہے۔صحت جیسا اہم معاملہ بھی صوبے کے حکمرانوں کی توجہ حاصل نہیں کر پایا، اندرون سندھ کے عوام کو معمولی علاج کیلئے بھی میلوں کا سفر کر نا پڑتا ہے اور وہ بھی ایسی سڑکوں پر جہاں مریض کی حالت تو بگڑتی ہی ہے سفر کا دورانیہ بھی بڑھ جاتا ہے جس سے ان کی اذیت دو چند ہوجاتی ہے۔ ادھرشہروں کے ہسپتال بھی اب اس قابل نہیں رہے کہ شہری آبادی کے ساتھ ساتھ دیہی مریضوں کو بھی سنبھال سکیں۔پیپلزپارٹی کا دوسرا دور مکمل ہوا تو کھربوں روپے ترقیاتی منصوبوں پر خرچ کر نے کے دعوے کئے گئے لیکن اس کے باوجودصحت، تعلیم، فراہمی آ ب ا ور دیگر شعبوں کے سیکڑوں منصوبے نامکمل رہ گئے۔دستاویزات کے مطابق 2200سے زائد ایسے منصوبے تھے جنہیں پیپلز پارٹی کی حکومت اپنے دوسرے دور اقتدار میں مکمل نہیں کر پائی، کچھ منصوبوں پر کام کا آغاز تو ہوا لیکن ان پر پیشرفت نہ ہو سکی جبکہ متعدد منصوبے ایسے بھی تھے جن پر کام بھی شروع نہ کیا جاسکااور وہ صر ف کاغذوں اور فائلوں تک محدود رہے۔کراچی، لاڑکانہ، حیدر آباد اور تھر جیسے علاقے نا مکمل منصوبوں کی گواہی دے رہے ہیں اسی طرح بے نظیر آباد، بدین، لاڑکانہ، جیکب آباد، ٹنڈو محمد خان، کشمور، ٹھٹھہ، گھوٹکی سمیت کئی علاقوںمیں منصوبوں کو پایہ تکمیل تک نہ پہنچایا جاسکا۔ زراعت کے شعبے کے 35سے زائد منصوبے ادھورے رہ گئے جبکہ صحت جیسا اہم شعبہ بھی سندھ حکومت کی عدم توجہی کا شکار رہااور ڈیڑھ سو سے زائد منصوبے نا مکمل رہے۔ سندھ کی حکمران جماعت عوامی خدمت کے دعوے کرتی تو دکھائی دیتی ہے لیکن عوامی خدمات عملی شکل میں کہیں دکھائی نہیں دیتی۔ سندھ کے عوام کبھی کتے کے کاٹنے کی ویکسین ڈھونڈنے کے لئے در در کی ٹھوکریں کھاتے دکھائی دیتے ہیں تو کہیں ایچ آئی وی ایڈز جیسی بیماری شہر کے شہر اپنی لپیٹ میں لیکر پوری دنیا کی توجہ حاصل کرلیتی ہے۔مگر عوامی خدمت کے دعوے پھر بھی تواتر سے جاری رہتے ہیں۔کبھی کوئی سڑک اپنی تعمیر کے چند مہینوں بعد ہی زمیں بوس ہو کر خبروں کی زینت بن جاتی ہے تو کبھی حکومتی ذخائر میں پڑی گندم صاحبان اقتدار ہضم کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ کرپشن کے لاتعداد اسکینڈلز پیپلز پارٹی کے رہنمائوں کا اثاثہ بن چکے ہیں۔ذو الفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کا نام بیچ کر سیاست کی جارہی ہے،پیپلز پارٹی جان چکی ہے کہ کار کر دگی کے نام پر سندھ کے عوام اسے ووٹ دینے والے نہیں اس لئے بھٹو اور بے نظیر کا نام استعمال کر نے میں ہی انہیں اپنا مفاد نظر آتا ہے۔ملک کی دوسری دو بڑی سیاسی جماعتوں کی طرف سے سندھ کے سیاسی معاملات میں کم دلچسپی پیپلز پارٹی کے لئے راستہ ہموار کرتی رہی ہے۔پیپلز پارٹی کے نو جوان رہنما بلاول بھٹو زر داری اپنی جذباتی تقریروں کے ذریعے عوام کی توجہ ضرور حاصل کر رہے ہیں لیکن یہ جذباتی تقریریں اس وقت زیادہ اہمیت کی حامل ہوتیں جب ان کے پیچھے پیپلز پارٹی کی کار کر دگی اور عوامی خدمت بھی دکھائی دیتی۔کرپشن اور ناکامی کے بد نماداغ صرف جذباتی بیانات اور تقریروں سے نہیں دھوئے جاسکتے۔ جلسوں سے سندھ کے عوام کو کسی نہ کسی طرح جمع کر کے رونق تو ضرور لگا لی جاتی ہے لیکن پھر میڈیا ایسے حقائق بھی سامنے لے آتا ہے جس میں عوام اس سچائی پردہ اٹھاتے بھی دکھائی دیتے ہیں کہ انہیں پیسے دیکر جلسے میں لایا گیا۔ اسمبلی کے پلیٹ فارم پر اپنی جذباتی تقریروں کے ذریعے اپنے پارٹی رہنماں کی طرف سے ڈیسک بجوانا بلاول بھٹو زر داری کا مشغلہ بن چکا ہے۔ فرط جذبات میں وہ حکومت کو مناظرے کا چیلنج بھی دے بیٹھتے ہیں لیکن مراد سعید جیسے حکومتی شعلہ بیان مقرر بلاول بھٹو زر داری کو ہر تقریر کے بعد آڑے ہاتھوں لیتے ہیں یہ الگ بات کہ مراد سعید کی تقریر سننے کیلئے بلاول اسمبلی میں نہیں رکتے۔ مراد سعید نے بلاول بھٹو کی طرف سے مناظرے کا چیلنج بھی قبول کر رکھا ہے اور انہیں دعوت دے چکے ہیں کہ کسی بھی ٹی وی چینل پر بیٹھ کر ان سے مناظرہ کر لیں۔ پاکستانی عوام یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ اٹھارہویں ترمیم کا کریڈٹ لینے اور اس کے نفاذ کے باوجود پیپلز پارٹی کی حکومت اپنے صوبے میں نمایاں کار کر دگی دکھانے میں کیوں ناکام رہی، طویل عرصہ تک پیپلز پارٹی سے وابستہ رہنے والے ووٹر اور سپورٹر بھی اب کھل کر اپنی جماعت کی حمایت کرنے سے گریزاںہیں بالخصوص متوسط طبقہ پیپلز پارٹی کی سیاست سے نالاں دکھائی دیتا ہے۔ سندھ اسمبلی میں اکثریت کی بناپر پیپلزپارٹی تیسری بار حکومت بنانے میں تو ضرور کامیاب ہو گئی لیکن اسے کراچی سے لیکر لاڑکانہ تک ناکامیوں کا بھی سامنا کر نا پڑا۔ کرپشن کے متعدد الزامات کے باعث آصف علی زر داری نے بظاہر سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرلی اور معاملات اپنے بیٹے بلاول بھٹو کو سونپ دیئے لیکن اہل سیاست جانتے ہیں کہ بلاول کے اعلانات اور فیصلوں کے پیچھے آصف علی زر داری کا دماغ کام کررہا ہوتا ہے۔ پارٹی پر اب بھی انہی کا تسلط اور حکومت پر انہی کا قبضہ ہے الیکشن میں تو پیپلز پارٹی کے امیدواروں نے اپنے بینرز اور پوسٹرز کے ساتھ آصف علی زر داری کی تصویر اور نام شامل کر نا بھی مناسب نہ سمجھا وہ جانتے تھے کہ یہ نام اور تصویر ان کی کامیابی کو ناکامی میں بدل سکتی ہے اس حقیقت کا بلاول کو بھی بخوبی ادراک ہے۔ بلاول بھٹو زر داری جذبات میں آکر اگر حکومت کو مناظرے کا چیلنج دے بیٹھے ہیں تو ان کے لئے بہتر یہی ہے کہ یہ چیلنج واپس لے لیں کیونکہ مراد سعید یا کسی اور حکومتی وزیر کے ساتھ کسی بھی ٹی وی چینل پر مناظرے کی صورت میں بلاول کو اپنی پارٹی کے بارہ سالہ اقتدار کا دفاع کر نا پڑے گا۔جس میں عوامی خدمت کم اور ناکامی و کرپشن زیادہ نظر آتی ہے صرف اسٹیبلشمنٹ پر کوئی الزام دھرنے یا حکومت کی کسی ناکامی یا سستی کو ہدف تنقید بنانے سے کام نہیں چلے گا۔ نوجوان جذباتی سیاستدان ایسی صورت میں ناک آئوٹ ہوتادکھائی دے رہا ہے۔ویسے ہار جیت سے قطع نظراگر وعدوں اور دعوئوں کا نام ہی سیاست ہے تو جذباتی شور شرابے اور الزام برائے الزام جیسے مناظرے میں کیا قباحت ہے۔کارکردگی نہ سہی بھٹو اور بے نظیر کا نام تو بیچا جا سکتا ہے۔