پی ڈی ایم اورجے یو آئی میں ٹوٹ پھوٹ 

پی ڈی ایم کے وجود میں آنے کے بعد مذکورہ سیاسی اتحاد فکری اعتبار سے مضبوط نہ ہو سکا ۔ جس کی بنیادی وجہ مختلف الخیالات سیاسی جماعتوں کے منشور اور مقاصد ہیں ۔ قومی سطح کی سیاسی جماعتوں کے ساتھ علاقائی جماعتوں کی وجہ سے اور ان کے خیالات سے جو ببانگ دہل لاہور میں اور دیگر مقامات پر دہرائے گئے ۔ بلوچستان کی علیحد گی کی بات ہو یا پنجاب پر انگیز کی غلامی اور پنجابیوں کے بھرپور تعاون کی باتیں ہوں مجموعی طور پر عام آدمی کے لیے سوہان روح بن چکی ہیں ۔ پاکستان میں سینٹ کے انتخابات قریب آرہے ہیں ۔ اپوزیشن کا ان کا عدم انعقاد محض بہانہ ہے  ۔ دائیں بائیں کی سیاست کرنے والوں نے کھڑے ہو کر لبر ل ہونے کا تاثر بھی دے رہے ہیں ۔ اور دنیا کو بتا رہے ہیں کہ مرد اور عورت میں کوئی تفریق نہیں اور عورت اگر وزیر اعظم بن جائے تو کوئی قابل اعتراض بات نہیں ہے ۔ 
سینٹ کے انتخابات سے قبل ہی استعفوں کے معاملے پر سیاسی اتحاد ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے ۔ دراڑیں واضح ہوتی جا رہی ہیں ۔ جیسے جلوس جاری رہیں گے ۔ لیکن سینٹ کے انتخابات کے بعد یا پھر عام انتخابات سے قبل مریم نواز کا پاکستان پیپلز پارٹی زندہ باد نعرے لگانے پر دل گرفتہ ضرور ہونگی ۔ لیکن سیاسی میدان میں اور سیاسی بساط پر ہر قسمی کھیل جائز اور حلال قرار دیا گیا ہے ۔ اس سیاسی اتحاد میں مسلم لیگ ن پی پی پی اور جمعیت علما ء اسلام اہم جماعتیں ہیں ۔  JUI ف ایک ایسی جماعت ہے جس نے پنجاب سے ووٹ تو بہت سمیٹا لیکن شاید پارلیمنٹ میں کوئی رکن نہیں پہنچ سکا ۔ مدارس کی کیثر تعداد ہونے کی بنا پر پنجاب میں جلسے اپنے ہو ں یا اتحادی جماعتوں کے کامیاب کرا لیتے ہیں ۔ اس سیاسی اتحاد میں جماعتوں کے درمیان مستعفی ہونے پر جہاں اختلاف واضح ہیں وہیں پر جماعتوں کے اندر بغاوت بھی سامنے آرہی ہے ۔ جمعیت علماء اسلام ف میں اختلافات قابل ذکر ہیں ۔ اگر اس جماعت کی سیاسی تاریخ کے اوراق الٹے جائیں تو پتہ چلتا ہے کہ یہ جماعت خاصی سخت جان واقع ثابت ہوئی ہے ۔ مولانا مفتی محمود کے دور میں اختلافات شدید ہوئے تو اُن کے ایک بزرگ مولانا غلام غوث ہزاروی نے الگ گروپ تشکیل دیا جس میں اراکین اسمبلی بھی شامل تھے ۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں وزیر اعظم کے انتخابات کے موقع پر متحدہ اپوزیشن نے مولانا شاہ احمد نورانی کو اپنا اُمیدوار نامزد کیا ۔ تو مولانا غلام غوث ہزاروی نے صرف ووٹ ہی نہیں دیا بلکہ کہا تھا کہ وہ ذوالفقار علی بھٹو کو مولانا نورانی سے بہتر سمجھتے ہیں ۔ اس وقت بھی عوامی پذیرائی میں خاص فرق نہ پڑا جبکہ مولانا غوث ہزاروی پاکستان بھر میں طوفانی دورے کرتے رہے ۔ مولانا مفتی محمود کے انتقال کے بعد مولاناسمیع الحق نے اپنا گروپ بنایا جن کا وجود اسمبلیوں میں تو موجود تھا لیکن عوامی پذیرائی حاصل نہ کر سکا ۔ انہوں نے دیگر جماعتوں کے ساتھ اتحاد بنا کر بڑے جلسے اور ریلیاں منعقد کیں لیکن مولانا سمیع الحق کو وُہ کامیابی نہ مل سکی حالانکہ وُہ خود نامور عالم اور ایک عالم دین کے صاحبزادے تھے ۔ اِسی مکتب فکر میں سے احرام رالاسلام بھی تھی ۔ عطا اللہ شاہ بخاری کے صاحبزادی نے زندہ رکھا لیکن وہ بھی محدود رہے ۔ جمعیت علماء السلام کو نقصان پہچانے کے لیے مولانا طارق جمیل کو بھی سامنے لا نے کی کوشش کی گئی ۔ اِسی مکتب فکر نے اُن کے ہاتھ تو چومے لیکن سیاسی طور پر مولانا فضل الرحمن کے ساتھ رہے ۔ اب دوسری بار جماعت سے باہر کر دیا گیا ہے ۔ اسی طرح سینیٹر تضیب گل اور خیبر پختون خواہ سے علماء کھل کر اختلاف کر رہے ہیں ۔ اپنی جماعت کے دفاتر بنانے کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے اور مولانا فضل الرحمن پر مختلف الزامات عائد کیے گئے ۔ جمعیت علماء اسلام میں اختلافات رہے ۔ اسمبلیوں میں قیادت کے مدِ مقابل ووٹ بھی دیے لیکن حقیقت یہ ہے کہ عوامی سطح پر اپنے مکتبہ فکر کے لوگوں نے اپنی قیادت کو نہیں چھوڑا ۔ حالیہ اختلافات میں فوری طور پر نقصان پہنچ سکتا ہے ۔ آئندہ سینٹ کے انتخابات میں بھی ناراض اراکین اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں مگر آئندہ عام انتخابات میں خیبر پختون خواہ اور بلوچستان میں مولانا فضل الرحمن کو ضرور سیاسی نقصان پہنچ سکتا ہے ۔ یہ بات طے ہے کہ سینٹ کے انتخابات ہوئے تو ا س اتحاد میں شامل تمام سیاسی جماعتیں اِس سے متاثر ہو نگی ۔ اگر پی پی پی نے فیصلوں کے بر عکس سینٹ کے انتخابات میں حصہ لیا تو وہ سینٹ میں ایک بڑی جماعت اور حزب اختلافات کے طور پر اپنا کردار ادا کر ے گی ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ پی پی پی استعفوں کی سیاست سے گریزاں ہے انہیں جماعت میں شکست و ریخت کے علاوہ جمہوری سسٹم سے دور رہنے کا پہلے غیر جماعتی انتخابات کا بخوبی تجربہ ہے اور اسے کہیں سے بہتری کی توقع بھی ہے ۔ اور اِس امر کا انہیں بخوبی اندازہ ہے کہ نواز شریف اب کبھی نہیں لوٹ سکے گا ۔

ای پیپر دی نیشن