نیویارک ٹائمز کے ساتھ ایک انٹرویو میں دلیپ چوہان جو کہ پانچ ہزار افراد کے عیسائی مخالف واٹس ایپ گروپ کے رکن ہیں کہتے ہیں کہ آن لائن گروپ پورے ملک میں ہندو قوم پرست تنظیموں کا ایک مجموعہ ہے۔ اس میں وزیر اعظم نریندر مودی کی بی جے پی سب سے نمایاں ہے۔
ستمبر 2021 میں، چوہان اور بی جے پی کے دیگر ممبران ایک پولیس سٹیشن میں گھس گئے اور پولیس افسران کے سامنے پادریوں کی پٹائی کی۔ بہت سے معاملات میں پولیس افسران حملہ آوروں کا ساتھ دیتے ہیں۔ مدھیہ پردیش میں، گاؤں کے بزرگ چند عیسائی خاندانوں پر جرمانہ عائد کر دباؤ ڈالتے ہیں۔ اقلیتی برادریوں کے خلاف نفرت پر مبنی جرائم کے متعدد واقعات میں مجرموں کو رہائی ملی کیونکہ پولیس نے شکایات پر کارروائی کرنے سے انکار کر دیا۔پولیس فورس پر حملہ آوروں کے خلاف شکایات درج کرنے والے لوگوں کو مجرم بنانے کا بھی الزام ہے۔ ایک کیس میں ایک عیسائی خاتون جو اپنی ماں کی اتوار کی نماز کی امامت میں مدد کرتی ہے چرچ میں حملے کے بعد شکایت درج کرائی تھی۔ پولیس نے ابھی تک کسی ایک شخص کو گرفتار نہیں کیا۔ لیکن شکایت جمع کرنے والی خاتون کے خلاف جوابی شکایت درج کرائی گئی جس میں اٹھہتر غیر ضمانتی دفعات شامل ہیں۔ کرسمس سے پہلے بھارتی پولیس نے کولکتہ (مغربی بنگال) میں ایک شیشو بھون (بچوں کا گھر یا یتیم خانہ) اور ایک اور ریاست وڈودرا (گجرات) میں چھاپہ مارا۔ کولکتہ یتیم خانہ مدر ٹریسا نے خود قائم کیا تھا، اور 11 فروری 2014 سے کولکتہ میں مشنریز آف چیریٹی چلا رہا تھا۔
چھاپہ مار پولیس نے دعویٰ کیا کہ یتیم خانے ہندو بچوں کو زبردستی عیسائی بنا رہے تھے۔ انہیں صلیب پہننے، مقدس بائبل کی تلاوت کرنے اور سور کا گوشت کھانے پر مجبور کیا گیا۔ یتیم خانہ کی انتظامیہ ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے اسے مفروضہ اور بے بنیاد قرار دیا ہے۔یتیم خانے کی ایک راہبہ نے نشاندہی کی کہ یتیم خانے میں ہفتے میں ایک بار صرف سبزی خور کھانا اور چکن پیش کیا جاتا ہے۔مجرمانہ ثبوت کے طور پر، مولکاٹا پولیس نے چھاپہ مارنے کا ذکر کیا ہے "انسٹی ٹیوٹ کی لائبریری سے 13 بائبلیں ملی تھیں اور وہاں رہنے والی لڑکیوں کو مذہبی متن پڑھنے پر مجبور کیا گیا تھا"۔ مدر ٹریسا نے 1950 میں قائم کردہ مشنریز آف چیریٹی نے ان الزامات کی تردید کی۔مدھیہ پردیش میں، شیام پورہ علاقے (ضلع ساگر) میں ایک یتیم خانے، سینٹ فرانسس سیوادھام (خیراتی گھر) کے حکام نے اس شبہ میں کہ بچوں کو گائے کا گوشت کھلایا اور بائبل پڑھائی گئی، پولیس نے چھاپہ مارا۔ سینٹ فرانسس سیوادھام یتیم خانے کے ڈائریکٹر فادر شنتو ورگیز نے کہا کہ ریاست میں گائے کا گوشت بھی دستیاب نہیں ہے اور ہفتے میں ایک بار صرف چکن ہی پیش کیا جاتا ہے۔پادری نے یہ بھی واضح کیا کہ تمام عقائد کے صحیفے نماز کے کمرے میں رکھے گئے تھے، نہ صرف بائبل، اور یہ کہ کسی کو بائبل پڑھنے پر مجبور نہیں کیا گیا تھا۔ فادر ورگیز نے کہا کہ اصل مسئلہ 1875 میں یتیم خانے کو 99 سال کے لیے لیز پر دی گئی 277 ایکڑ زمین کا ہے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ ہندو انتہا پسندوں کے دباؤ پر ریاستی حکومت اب زمین لینا چاہتی ہے۔بی جے پی کے زیر اقتدار کرناٹک، جہاں عیسائی آبادی کا دو فیصد سے بھی کم ہیں لیکن بھارت میں عیسائیوں کے خلاف نفرت پر مبنی جرائم کی تیسری سب سے بڑی تعداد کا سامنا کرنا پڑا، ریاستی اسمبلی نے "آزادی مذہب" بل منظور کیا، جسے عالمی سطح پر بھی ناپسند کیا گیا ہے۔ 2020 میں، بین الاقوامی مذہبی آزادی پر امریکی کمیشن نے 2004 کے بعد پہلی بار ہندوستان کو "خاص تشویش والے ملک" والے ممالک کی فہرست میں شامل کیا۔عیسائیوں کے زیر انتظام سکولوں پر حملوں کی اطلاع کم ہی ملتی ہے۔ لیکن مدھیہ پردیش میں 200 سے 300 کے ہندو ہجوم کا حالیہ حملہ منظر عام پر آیا۔ سینٹ جوزف سکول کے پرنسپل برادر انتھونی ٹینمکل کے مطابق ہجوم نے اس پر پتھراؤ کیا۔ وہ بعد میں سکول میں داخل ہوئے جب طلباء اپنا امتحان دے رہے تھے۔ہندو قوم پرست سیاست دان اکثر عیسائیوں اور دیگر اقلیتوں (دلت، مسلمان، دیگر) کے خلاف نفرت کو ہوا دیتے ہیں، انہیں باہر کے لوگ قرار دیتے ہیں، انہیں ایسا شخص قرار دیتے ہیں جن پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ، سنگھ پریوار، بی جے پی اور دیگر ہندو تنظیموں کا نعرہ ’’ہندوستان ہندوؤں کے لیے‘‘ ہے۔
وہ چاہتے ہیں کہ عیسائی اور مسلمان ویٹیکن سٹی یا مکہ کی طرف دیکھتے ہوئے ہندوستان چھوڑ دیں۔ 2020 میں انسانی حقوق کے گروپ اوپن ڈورز کے ذریعہ عیسائیوں پر ظلم و ستم کے حوالے سے ملک کو دنیا میں 10 ویں بدترین درجہ دیا گیا تھا۔جگت سنگھ پور ضلع (اڑیسہ) کے کلیپالا گاؤں میں چھ خواتین کے سروں پر بااثر ہندوؤں نے تشدد کیا۔ ان کا جرم ہندو مذہب کو اپنی مرضی سے ترک کرنا تھا۔ عیسائی مشنریوں کو ہراساں کیا جاتا ہے، جلاوطن کیا جاتا ہے اور یہاں تک کہ مار دیا جاتا ہے۔ہندوستانی حکومت نے امریکہ کے لیے پہلی دستیاب پرواز پر نارتھ کیرولینا میں چرچ آف کرائسٹ سے تین امریکی مبلغین کو ملک بدر کرنے' کا حکم دیا۔ ہندوستانی عدالتیں شاذ و نادر ہی ایسے لوگوں کو سزا دیتی ہیں جو عیسائی مبلغین کو مارتے ہیں یا قتل کرتے ہیں۔
کچھ سال قبل ہندوؤں نے ایک کتاب کے لیے عیسائیوں پر حملہ کیا جس میں مبینہ طور پر ہندو دیوتاؤں کی توہین کی گئی تھی۔ تحقیقات سے معلوم ہوا کہ یہ کتاب کسی عیسائی نے نہیں لکھی تھی، بلکہ ایمانوئل مشن کی بک شاپ میں فروخت کے لیے رکھی گئی تھی۔ آر ایس ایس کی طرف سے عیسائی گروپوں کے خلاف منظور کردہ ایک قرارداد میں آر ایس ایس نے ہندوؤں، خاص طور پر سویم سیوکوں سے کہا ہے کہ وہ ملک کی داخلی سلامتی کے لیے خطرہ بننے والے ''ملک دشمن اور دہشت گرد'' عیسائی گروہوں سے چوکنا رہیں۔ اس نے حکومت پر زور دیا کہ وہ مسیحی گروہوں کے خلاف سخت اقدامات کرے۔
آر ایس ایس نے پوپ جان پال II کے اس بیان کی بھی مذمت کی تھی جس میں ہندوستانی ریاستوں کے مشنریوں کے ذریعہ ہندوؤں کے مذہب تبدیل کرنے پر پابندی عائد کرنے پر تنقید کی گئی تھی۔ یہ بتانا ضروری ہے کہ پوپ نے ابھی کہا تھا کہ ’’بھارت میں مذہبی آزادی کے فطری حق کا آزادانہ استعمال ممنوع ہے‘‘۔
12 اکتوبر 2008 کو پوپ بینیڈکٹ XVI، ہندوستان میں جاری عیسائی مخالف تشدد کی طرف ہندوستانی حکومت کی توجہ مبذول کرنے پر مجبور ہوئے۔ آر ایس ایس نے ہندوستانی حکومت پر زور دیا کہ وہ عیسائی مشنریوں کو زمین کے قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے تبدیلی کی اپنی مہم کو جاری رکھنے کی تلقین کرنے پر پوپ کے ساتھ احتجاج درج کرے۔ مزید پانچ سال تک یہ ظلم و ستم جاری رہا۔(جاری)