2022 کا سورج کورونا وائرس کی پانچویں لہر کی قیامت خیزیوں کے ساتھ طلوع ہو چکا ہے ۔ دنیا کے بیشتر ممالک کورونا کی نئی لہر کی زد میں آچکے ہیں جن میں پاکستان بھی شامل ہے ۔حالیہ وبائی وائرس کوکورونا کے ویری اینٹ اومیکرون کے نام سے تشخیص کیا گیا ہے۔ تاہم اس سے متاثرہ مریض کی علامات اور سنگینیوں سمیت علاج بارے ا بھی تحقیقات جاری ہیں ، فوری بچائو کیلئے کورونا ویکسین کو لازمی قرار دیا جارہا ہے اور ویکسین کی دو ڈوز لگوانے والوں کو چھ ماہ بعد بوسٹر ڈوز لگانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ لیکن یہ کس حد تک کارآمد ہے اس بارے ابہام باقی ہے۔البتہ اس وقت میڈیا اور اخبارات کے ذریعے ہلاکت خیزیوں اور نقصانات بارے تیزی سے بریفننگ دی جارہی ہے اور عوام کو باور کروایا جا رہا ہے کہ اگر انھوں نے احتیاط نہ برتی تو ہولناک نتائج کا سامنا کرنا پڑیگا۔ یقینا وبائیں یونہی نہیں پھوٹتیں بسا اوقات خدا کی پکڑ کی نشانی ہوتی ہیں
’’کوئی تو جرم تھا جس میں سب ملوث ہیں
تبھی تو ہر شخص منہ چھپائے پھرتا ہے ‘‘
صورتحال یہ ہے کہ پاکستان کے دو بڑے شہر وں میں اومیکرون نے پائوں پسار لیے ہیں جو کہ قابل تشویش ہے کیونکہ کوروناکی چوتھی لہر کے ویری اینٹ ڈیلٹا نے تو بھارت میں قیامت صغرٰی کی سی کیفیت پیدا کر دی تھی اور ایک بار پھر عالمی ادارہ صحت نے خبردار کیاہے کہ کورونا وائرس کی نئی قسم اومیکرون دنیا بھر میں غیر معمولی رفتار سے پھیل رہی ہے اور اپنی جینیاتی شکل تبدیل کرنے والی اس قسم کے مریضوں کی77 ممالک میں تصدیق ہوچکی ہے جبکہ دیگر ممالک میں تصدیق ہونا باقی ہے۔ سربراہ عالمی ادارہ صحت ڈاکٹر ٹیڈروس نے اومیکرون کے بڑھتے کیسسز پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہاہے کہ انھیں تحفظات ہیں کہ ا س وائرس کے خطرات کوہلکا لیا جا رہا ہے اور اس کی روک تھام کے لیے اقدامات بھی نہیں کئے جارہے بالفرض اگر اومیکرون سے بیماری کی شدت کورونا کی نسبت کم بھی ہوئی پھر بھی دنیا محتاط رہے کیونکہ کورونا وائرس کی نئی قسم اومیکرون اور ڈیلٹا کے واقعات کے سونامی کے سبب پہلے سے بحران سے دوچار کمزور نظام صحت پر مزید دبائو بڑھ سکتا ہے جس سے ناقابل تلافی نقصانات کا خدشہ ہے ۔واضح رہے کہ اومیکرون کی سب سے پہلے تصدیق نومبر 2021 میں جنوبی افریقہ میں ہوئی تھی اور تب سے وہاں کووڈ کے متاثرین میں ایک دم سے اضافہ دیکھنے کوملا تھا ۔یہاں تک کہ جنوبی افریقہ کے صدر راما فوسا بھی کووڈ سے متاثر ہوئے تھے ۔اسکے بعد جنوبی افریقہ کے ارد گرد ممالک میں فضائی پابندیاں اور دیگر اقدامات بھی کووڈ پھیلائو کو روکنے میں ناکام رہے تھے جس سے معاشی بحران بڑھ گیا تھا جس سے سبق حاصل کرنا چاہیے تھا لیکن کرسی بچائو مہم سے ہی فرصت نہیں ملتی نتیجتاً پاکستان میں بھی دیگر ممالک کی طرح اومیکرون کے پھیلائو میں تیزی سے اضافے کی خبریں سامنے آرہی ہیں مگر ہنوز حکومتی اورعوامی بے حسی دیکھنے میں آرہی ہے حالانکہ پوری دنیا کا میڈیا اور اخبارات چیخ رہے ہیں کہ اس ضمن میں ترجیحی بنیادوں پر اقدامات کی ضرورت ہے۔اومیکرون نے دنیا کو دہلا دیا ہے فرنسیسی وزیراعظم نے کہا ہے کہ اومیکرون روشنی کی رفتار سے پھیل رہا ہے اسلیے سخت پابندیاں ضروری ہیں لیکن دوسری طرف بہت سے ممالک جیسے یورپ ، بلجئیم ، اٹلی ،ڈنمارک ، کروشیا وغیرہ میں ماسک اور لاک ڈائون جیسی سخت پابندیوں کے خلاف پرتشدد مظاہرے جاری ہیں کیونکہ یہ تو طے ہے کہ لاک ڈائون سے جہاں نظام زندگی مفلوج ہوتا ہے وہا ں معاشی بحران بھی پیدا ہوتے ہیں اور حکومتیں گھر گھر کھانا پہنچا نے سے رہیں بلکہ ہمارے جیسے غریب ممالک کے سربراہان اور ارکان اسمبلی تو لاک ڈائون کے دوران منظر سے ہی غائب ہو جاتے ہیں تو ایسے میں وقت سے پہلے انتظامات ہی مناسب حل ہیں جن پر سوچ و بچار نہ ہونے کے برابر ہے ۔مجھے تو چین کے شہر شیان کے شہری کا وہ پیغام نہیں بھولتا جب اس نے سماجی رابطے کی ویب سائیٹ ویبو پر لکھا تھا کہ میں بھوک سے مرنے والا ہوں ،میرے پاس کھانے کے لیے کچھ نہیں ،میری رہائشی عمارت والے مجھے باہر نہیں جانے دے رہے ،میرے پاس موجود انسٹنٹ نوڈلز بھی ختم ہونے والے ہیں ،میری مدد کریں ‘‘۔یہ صرف چین کی داستان غم نہیں بلکہ کورونا سے متاثرہ سبھی ایسے ممالک جہاں غربت اور بیروزگاری سب سے بڑا مسئلہ ہے وہاں کی تقریباً ساٹھ فیصد آبادی اسی حالت کا شکار ہوگئی تھی کیونکہ لاک ڈائون کی وجہ سے لوگوں کی مالی حالت مزید خراب ہوگئی تھی اور ابھی تک لوگ اس بحران سے باہر نہیں نکل سکے کہ کورونا کی پانچویں لہر نے گھیر لیا ہے تبھی تو حکومتیں پریشان ہیں اور مختلف النوع اقدامات قابل غور ہیں تاکہ معاملات کو قابو میں رکھا جا سکے ۔
سوال تو یہ ہے کہ کیا سفری پابندیاں اومیکرون سے بچائو میں مددگار ثابت ہو سکتی ہیں یا حکومت ایسے ہی پائوں پھیلا کر سوتی رہے گی اور پھر لاک ڈائون آخری حل رہ جائے گا ؟ کیونکہ حکومت اور اپوزیشن کا حال ایک سا ہو چکا ہے کہ ’’دونوں طرف تھی لوٹ برابر لگی ہوئی جو کچھ جس کے ہاتھ لگا لوٹتا رہا ‘‘جبکہ عوام اس وبا اور مہنگائی کے ہاتھوں پہلے ہی لٹ چکے ہیںاورتازہ خبر یہ ہے کہ مریض بڑھ رہے ہیں۔ایسے میں حکومت پریس کانفرنسیں کرنے اور بیانات داغنے کے علاوہ کیا کر رہی ہے ؟ کورونا کے پھیلائو کی وجوہات سے تو آپ کسی حد تک باخبر ہیں تو ایسے اقدامات کیوں نہیں کئے جارہے جو کورونا یا اس کی دیگر اقسام کو روکنے میں مددگار ثابت ہوں جبکہ ہمارا نظام صحت اور معاشی نظام دونوں ہی سوالیہ نشان ہیں مزید لاک ڈائون کے نتیجے میں بیروز گاری پھیلی ہے جس سے غربت میں اضافہ ہوا رہی سہی کسرپٹرولیم مصنوعات اور یوٹیلٹیز کے نرخوں میں اضافے نے پوری کر دی ہے ۔اس وقت تو ویسے ہی عام آدمی کے لیے بقا کا مسئلہ پیدا ہوچکا ہے تو کیسے غریب عوام احتیاطی تدابیر اختیار کر سکیں گے ؟یہ بھی قابل ذکر ہے کہ پاکستان میں بڑی تعداد دھیاڑی دار افراد کی ہے تو ایسے میں لاک ڈائون معاشی قتل کے مترادف ہے ۔لہذا دانشمندانہ اقدامات کے ذریعے ہی بیماری کے پھیلائو کو کم کیا جاسکتا ہے اور میں پھر کہونگی کہ اس سلسلے میں ارکان اسمبلی کو چاہیے کہ اپنے اپنے علاقے میں مجموعی طور پر صفائی ،اسپرے اور دیگر حفاظتی اقدامات کریں اور عوام ویکسینیشن کروائیں تاکہ اومیکرون کی ہلاکت خیزیوں سے بچا جا سکے کیونکہ اومیکرون اب ایک خاموش قاتل نہیں رہا ۔باقی مورخ ضرور لکھے گا کہ کورونا وباء کے دوران کسی بھی مذہب کا کو ئی پیر یا کوئی عامل کسی مرید کو شفا نہ بخش سکا ،مشکل کشا اور حاجت روا صرف اللہ کی ذات ہے۔ اسلیے اس کے آگے سربسجود ہو جائو بے شک وہ ہر چیز پر قادر ہے اور بخشنے والا مہربان ہے ۔