تحریک انصاف کی حکومت انتخابی منشور میں کڑے احتساب کا نعرہ لیکر اقتدار میں آئی اور پوری قوم کڑے احتساب کے ایجنڈے پر یک زبان ہے۔ جب ہم احتساب کا نام لیتے ہیں تو اس کا مطلب ہوتا ہے کہ تمام سرکاری عہدوں پر رہنے والے افراد کا بلاامتیاز کڑا اور غیر جانبدارانہ احتساب کیا جائے لیکن انکے ٹرائل میں انصا ف کے تقاضے ہر صورت پورے ہونے چاہئیں اور کسی بھی پہلو سے یہ تاثر نہیں جانا چاہئے کہ احتساب میں کسی قسم کی جانبداری کی جارہی ہے۔ ایسے ہی غیر جانبدارانہ احتساب کیلئے قوم نے تحریک انصاف کو منتخب کیا تھا۔ اقتدار میں آنے کے بعد تحریک انصاف نے یہی کہا کہ احتساب عدالتوں کے مقدمات ہمارے دور میں نہیں بنے بلکہ یہ سابقہ حکومتوں میں بننے والے کیسز ہیں جس کا ٹرائل اب ہمارے دور حکومت میں ہورہا ہے۔ یہ بات اس وقت کسی حد تک درست بھی تھی۔
دنیا بھر میں یہ اصول ہے کہ جب تک کوئی شخص تحقیقات مکمل ہوکر مجرم ثابت نہ ہوجائے اس وقت تک گرفتاری عمل میں نہیں لائی جاتی اور اگر کسی کے ساتھ غیر منصفانہ رویہ اختیار کرلیا جائے تو عدالتیں نہ صرف انہیںباعزت بری کرتی ہیں بلکہ حکومت کو بھاری ہرجانے کی ادائیگی کا بھی حکم دیا جاتا ہے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ برطانیہ میں طیارہ ہائی جیکنگ کے ایک مقدمے میں زلفی بخاری کے کسی عزیز کو اسی طرح بے گناہ ہونے کے باوجود گرفتار کیا گیا تھا اور جب ٹرائل ہوکر وہ بے گناہ ثابت ہوئے تو نہ صرف باعزت رہائی ملی بلکہ انہیں ہرجانے کے طور پر بھاری رقم بھی ملی۔
ہمارے ہاں ہمیشہ سے عجب احتساب چلتا آیا ہے کہ پہلے اپوزیشن لیڈرز کو چن چن کر گرفتار کیا جاتا ہے اور جب ان کی گرفتاری کی وجہ دریافت کی جاتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ ان کے خلاف تحقیقات کرنی ہیں حالانکہ اصول تو یہ ہونا چاہئے کہ تحقیقات پہلے ہوں اور مجرم ثابت ہونے پر گرفتاری عمل میں لائی جائے لیکن یہاں الگ اصول ہے۔ اگر یہی اصول ہے تب بھی ‘ اسے تمام سیاستدانوں پر لاگو ہونا چاہئے لیکن یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ حزب اقتدار کے ایک رہنما کی گرفتاری کے متعلق چیئرمین نیب نے سوال کے جواب میں کہا کہ اگر انہیں گرفتار کرتے ہیں تو خدشہ ہے کہ وہ ہارٹ اٹیک سے مرجائیں گے۔ اگر حزب اقتدار کے وہ رہنما بیمار اور لاغر ہیں تو اپوزیشن کے تمام نامی گرامی سیاستدان کونسے جوان اور صحت مند ہیں؟
چلیں اس کے باوجود اپوزیشن نے خود کو احتساب کے لئے پیش کر رکھا ہے تو آپ کم از کم ایسا ٹرائل تو کریں کہ جس سے جان بوجھ کر کسی کو اذیت سے دوچار کرنے کا تاثر نہ جائے۔ اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ چاروں صوبوں میں نیب‘ ایف آئی اے اور عدالتیں موجود ہیں اور تمام صوبوں میں ان اداروں میں کام کرنے والے اپنے قومی فرائض ایمانداری سے انجام دے رہے ہیں ۔ ایسے میں یہ بات دیکھنے میں آئی ہے کہ سندھ میں مقیم سیاستدانوں کو پوچھ گچھ کے لئے اسلام آباد یا لاہور طلب کیا جاتا ہے۔ انہیں گرفتار کرکے اسلام آباد یا لاہور میں قید رکھا جاتا ہے۔ ان کا ٹرائل اسلام آباد اور لاہور کی عدالتوں میں کیا جاتا ہے۔ ایسے میں آپ کیا تاثر دے رہے ہیں؟ اس تاثر سے تو ایک صوبے میں موجود آپ تمام تحقیقاتی‘ عدالتی اور احتساب کے اداروں کی ساکھ کو روند رہے ہیں اور دوسری طرف ایک صوبے کے
عوام کے مینڈیٹ کو تسلیم کرنے سے انکار کر رہے ہیں۔اس تمام تاثر کے متعلق اپوزیشن تو لازمی الزام تراشی کرتی ہے اور کئی کالم نگاروں نے بھی اس پر کھل کر لکھا ہے ۔ اس تاثر پر مہر تصدیق اس وقت ثبت ہوگئی ہے جب انتہائی ایمانداری سے اپنے سرکاری فرائض انجام دینے والے نہایت دیانتدار افسر سابق ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن نے ایک بیان میں اصل حالات بیان کردیئے۔ سابق ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن بھی بہترین افسر رہے ہیں اور اب موجودہ ڈی جی ایف آئی اے ثناء اﷲ عباسی بھی بہترین ساکھ کے حامل ہیں۔ بشیر میمن نے برملا کہا کہ مجھ پر جسٹس فائز عیسی کیخلاف تحقیقات کیلئے اعلی سطح سے دباؤ تھا جس پر میں نے اسے اختیارات سے تجاوز قرار دیکر مسترد کردیا۔ اسی طرح بشیر میمن نے کہا کہ مجھے اپوزیشن کے درجنوں نامور لیڈروں کیخلاف تحقیقات کے احکامات آتے رہے۔ بشیر میمن کے اخباری بیان سے یہ بات بالکل واضح ہوگئی کہ انہیں غلط اور جانبدارانہ احکامات نہ ماننے کی پاداش میں ریٹائرمنٹ کے بعد تنگ کیا جارہا ہے اور ان سے غیر متعلقہ سوالات و طلبی کی جارہی ہے۔ انہوں نے حزب اقتدار کے احتساب کے نظام سے متعلق طرز عمل کو نہ صرف جانبدارانہ ثابت کیا ہے بلکہ اس طرز عمل کو ملکی یگانگت کیلئے بھی خطرناک قرار دیا ہے۔
بشیر میمن کے انکشافات کے بعد کم از کم اب تو احتساب کے نظام کو ایسا بنادیں کہ جانبداری اور غیر ضروری تنگ کرنے کا تاثر بھی ختم ہوجائے اور تمام صوبوں میں موجود تحقیقات‘ احتساب اور عدالتی اداروں پر یکساں اعتماد کا اظہار ہو۔
آصف زرداری سمیت سندھ کے تمام سیاستدانوں اور سندھ کے افسران کے کیس سندھ میں ہی چلائے جائیں اور ان کے مقدمات جلد ازجلد نمٹائے جائیں۔ جب تک کوئی مجرم ثابت نہ ہو اس وقت تک گرفتاری نہیں ہونی چاہئے اور اٹھارہویں ترمیم پر مکمل عملدرآمد ہونا چاہئے۔ صوبوں کو صوبائی خودمختاری دی جائے اور مرکزی حکومت اس پر پوری طرح عمل کرے‘ اسی سے وفاق مضبوط ہوگا اور صوبے بھی ملکی ترقی کیلئے وفاق سے تعاون کریں گے۔ صوبوں کے حقوق پر ڈاکہ نہیں ڈالنا چاہئے۔ مشرقی پاکستان میں جس طرح نفرتیں پیدا کی گئیں اسکے نتیجے میں پاکستان دولخت ہوا۔ اب سندھ میں غیر منصفانہ اقدامات نہ کئے جائیں تاکہ بھارت کو سازشوں کا موقع نہ ملے۔