’ابوالاثر حفیظ جالندھری اور مولانا حالی پانی پتی (قسط دوم)

شاہنامۂ اسلام‘ کے بارے میں ایک مشہور شاعر نے تفنن کے طور پر کہا، ’اسلام کا شاہوں سے تعلق کیا ہے؟‘ پھر یہ اعتراض عام ہونے لگا کیونکہ جملہ بہت بڑا کاٹ دار ہے مگر غالباً کسی معترض نے ’شاہنامۂ اسلام‘ کے ابتدائی چند صفحے بھی کبھی نہیں پڑھے۔ یہ کتاب مسلمان بادشاہوں سے کوئی تعلق نہیں رکھتی۔ تقریباً آٹھ ہزار اشعار پر مشتمل اس کی چار جلدیں عرب کی ابتدائی تاریخ سے شروع ہوتی ہیں اور غزوۂ احزاب پر ختم ہوجاتی ہیں۔ غالباً حفیظ اس کو خطبہ حجتہ الوداع تک لے جانا چاہتے تھے جب اللہ کی طرف سے تکمیل دین کی آیت نازل ہوئی مگر ایسا نہ ہوسکا چنانچہ ’شاہنامۂ اسلام‘ اچانک ختم ہوگیا اس لیے اس کا شاہوں سے کوئی تعلق ہی نہیں بنتا۔
 دراصل شاہ (محفف شہ) کا مطلب ہے ’بڑا‘ جیسے شاہکار یعنی بڑا کام، شاہراہ یعنی بڑی سڑک یا شاہرگ یعنی بڑی رگ وغیرہ۔ گویا ’شاہنامۂ اسلام‘ کا مطلب ہے اسلام کے بارے میں بڑی کتاب۔ مشہور ایرانی شاعر کا ’شاہنامہ‘ بھی بادشاہوں کے بارے میں نہیں بلکہ ایران کی اساطیری تاریخ ہے اور بڑی ضخیم کتاب ہے جس میں کہا جاتا ہے کہ ساٹھ ہزار اشعار ہیں۔ حفیظ کا ’شاہنامۂ اسلام‘ بھی اسی مفہوم میں اسلام کے بارے میں ضخیم کتاب ہے۔ اس کے شروع میں ایک شعر ہے:
کیا فردوسیِ مرحوم نے ایران کو زندہ
خدا تو فیق دے تو میں کروں ایمان کو زندہ
یہی ’شاہنامۂ اسلام‘ کا مقصد و موضوع ہے۔ راقم السطور کا خیال ہے کہ ’شاہنامۂ اسلام‘ کے لیے حالی کی ’مسدسِ مدوجزرِ اسلام‘ محرک ثابت ہوئی۔ یکے بعد دیگرے شاہنامۂ اسلام کی چار جلدیں شائع ہوئیں۔ چوتھی جلد 1947ء میں چھپی جو اچانک غزوۂ احزاب پر ختم ہو جاتی ہے۔ اس زمانے میں حفیظ کا خیال تھا کہ کہ یہ سلسلہ جاری رکھا جائے لیکن کئی وجوہ کی بنا پر یہ آگے نہ چل سکا۔ غالباً ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ حفیظ نے شاہنامہ لکھنے کے لیے بطورِ پس منظر اسلامی تاریخ کے دورِ اوّل کے بارے میں بہت سے مآخذ کا مطالعہ کیا تھا۔ قرآنِ مجید، احادیث اور سیرت کی کتابوں پر خصوصاً بہت توجہ دی تھی۔ ’شاہنامہ‘کے مختلف اشعار پر انھوں نے جو حواشی لکھے ہیں۔ وہ میرے اس دعوے کی تائید کرتے ہیں لیکن قیامِ پاکستان کے بعد ان کی مصروفیات بہت بڑھ گئی تھیں۔ اس لیے ایک طویل اور مربوط نظم لکھنے کے لیے جو ذہنی فراغت درکار ہے وہ انھیں میسر نہیں تھی۔ چنانچہ شاہنامۂ اسلام غزوۂ احزاب کے بیان سے آگے نہ جا سکا۔ ’شاہنامہ‘ کی پہلی جلد کا آغاز بیوی اور بیٹے کے ساتھ حضرت ابراہیم علیہ السلام  کے مکے میں آنے سے ہوتا ہے۔ 
خدا کا قافلہ جو مشتمل تھا تین جانوں پر
معزز جس کو ہونا تھا زمینوں آسمانوں پر
چلا جاتا تھا اس تپتے ہوئے صحرا کے سینے پر
جہاں دیتا ہے انساں موت کو ترجیح جینے پر
پھر مختصر طور پر یہ بتایا ہے کہ اس وقت دنیا کے مختلف ملکوں میں کتنی جہالت اور گمراہی پھیلی ہوئی تھی۔ سر زمینِ عرب میں عام لوگوں کے حالات اور معاملات کس قسم کے تھے؟ ایسے میں نبیِ پاک ﷺ کی ولادت، پھر آپﷺ  کی دعوتِ اسلام اور اس کے نتیجے میں وہ تمام آلام و مصائب جن کا سامنا اس چھوٹی سی جماعت نے کیا۔ پھر چار جلدوں میں تفصیل سے غزوہ ٔبدر، غزوۂ احد اور غزوۂ احزاب (خندق) کا بیان ہے جو تقریباً آٹھ ہزار اشعار پر مشتمل ہے اور جگہ جگہ حواشی میں آیات ِ قرآنی، احادیث اور سیرت کی کتابوں کے حوالے ہیں۔ اگر یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہتا تو شاید نبیِ آخر الزماں  ﷺکی آخری علالت تک چار جلدیں مزید لکھی جاتیں مگر ایسا نہ ہو سکا۔ گویا موجودہ صورت میں شاہنامۂ اسلام ایک طویل مگر نامکمل نظم ہے۔ آٹھ ہزار اشعار کی اس طویل نظم میں جگہ جگہ عمدہ اشعار ہمیں روک لیتے ہیں اور دوبارہ پڑھنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ دنیا بھر کی بڑی زبانوں میں بہت سی بیانیہ اور رزمیہ نظمیں لکھی گئی ہیں مگر اس قبیل کی نظموں میں ہر جگہ ایک ہی معیار کی شاعری نہیںہوتی اور یہی صورت شاہنامۂ اسلام کی ہے مگر اعلیٰ درجے کی شاعری کے نمونے بھی کم نہیں ہیں۔
کہا جا سکتا ہے کہ شاہنامۂ اسلام منظوم سیرت کی ایک نامکمل کتاب ہے۔ اس میں رسولِ خدا ﷺکی زندگی کے حالات و واقعات بھی مکمل نہیں ہو سکے مگر بہت سے نقاد اور ان کے زیرِ اثر ادب کے اکثر طلبہ یہ سمجھتے ہیں کہ اس میں مسلمانوں بادشاہوں کی تاریخ لکھی گئی ہے۔ شاہنامۂ اسلام میں ’مسدسِ حالی‘ کا اثر اس بات سے ظاہر ہے کہ حالی کی طرح حفیظ نے بھی اسلام کے عروج و زوال کا خاکہ منظوم کیا ہے مگر حالی نے زوال کے بعد عروج اور اس کے بعد موجودہ زوال کا نقشہ بڑے موثر انداز میں بنایا ہے۔ اگر حفیظ شاہنامۂ اسلام کے ان واقعات کو موجودہ زمانے تک لا سکتے تو وہ بھی اس کا اختتام ’مسدسِ حالی‘کے انداز میں کرتے۔
حفیظ لڑکپن سے بڑھاپے تک حالی کے مداح رہے ہیں۔ لڑکپن میں وہ مسدسِ حالی سے متاثر ہوئے اور اپنی نظم و نثر میں حالی کا کسی نہ کسی طور ذکر کرتے رہے۔ انھوں نے اپنی کتاب ’نثرانے‘میں اس بات کااعتراف کیا ہے کہ انھوں نے حالی کے اندازکی نظمیں بھی کسی زمانے میں لکھی تھیں مگر دیوانِ حالی کی جانب ان کی توجہ اکسٹھ سال کی عمر میں ہوئی جب انھیں کہیں سے دیوانِ حالی مل گیا۔ انھوں نے اوّل سے آخر تک اسے توجہ سے پڑھا اور پھر فیصلہ کیا کہ اس کا انتخاب کیا جائے۔ چنانچہ ’انتخابِ دیوانِ حالی‘ تیار کیا جس کے دیباچے میں حالی سے متاثر ہونے کی پوری روداد لکھ دی اور یہ اعتراف بھی کیا:
’’اکسٹھ برس کی عمر میں حالی کا دیوان میرے مطالعے میں آیا ہے اور میں نے اپنے ذوقِ سخن فہمی کے سہارے خصوصاً غزل پر ایسی ناقدانہ نظر ڈالنے کی جرأت کی ہے جس سے ہر شاعر (چھوٹا ہو یا بڑا) دوسرے شاعر کے کلام کو پرکھتا ہے اور میری حیرت کی کوئی انتہا نہیں کہ حالی کی غزل اردو کے کسی بڑے سے بڑے شاعر سے کسی صورت میں بھی کم رتبہ نہیں۔‘‘ ۔۔۔۔۔۔ (جاری) 

ای پیپر دی نیشن