زر مبادلہ اور برآمدات کی تشویش ناک صورتحال

Jan 09, 2023

حامد ریاض ڈوگر

اسٹیٹ بنک آف پاکستان کی طرف سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر میں نہایت تیزی سے کمی آ رہی ہے اورتیس دسمبر 2022ءکو ختم ہونے والے ہفتے میں زرمبادلہ کے مجموعی ذخائر 28 کروڑ 17 لاکھ ڈالر کی کمی سے 11 ارب 42 کروڑ 55 لاکھ ڈالر کی سطح پر پہنچ گئے۔ اس دوران مرکزی بینک کے ذخائر 24 کروڑ 54 لاکھ ڈالر کی کمی سے 5 ارب 57 کروڑ 65 لاکھ ڈالر کی کم ترین سطح پر آ گئے۔ جب کہ کمرشل بینکوں کے موجودہ ذخائر 3 کروڑ 93 لاکھ ڈالر کی کمی سے 5 ارب 84 کروڑ 60 لاکھ ڈالر کی سطح پر ریکارڈ کئے گئے ہیں۔ واضح رہے کہ اپریل 2014ءکے بعد سرکاری زرمبادلہ ذخائر کی یہ کم ترین سطح ہے۔ اپریل 2014ءکے پہلے ہفتے میں سرکاری زر مبادلہ ذخائر 4 ارب 94 کروڑ 30 لاکھ ڈالر پر آ گئے تھے۔ زرمبادلہ ذخائر میں کمی کا سب سے تشویش ناک پہلو یہ ہے کہ یہ ذخائر ملکی درآمدات کی ایک ماہ کی ضروریات بھی پوری کرنے کے لیے ناکافی ہیں، جب کہ اپریل 2014ءمیں سرکاری زر مبادلہ کے ذخائر اس وقت کے حساب سے ڈیڑھ ماہ کی ملکی درآمدات کے لیے کافی تھے۔ ادھر رواں مالی سال جولائی سے دسمبر تک ملکی برآمدات میں 5.79 فیصد کمی ہوئی۔ دسمبر میں سالانہ بنیادوں پر برآمدات میں 16.64 فیصد کی کمی ریکارڈ کی گئی، جب کہ دسمبر میں ماہانہ بنیادوں پر برآمدات 3.64 فیصد کم ہوئیں۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے ملکی برآمدات میں کمی کا نوٹس لیتے ہوئے وزیر تجارت نوید قمر کی سربراہی میں کمیٹی تشکیل دے دی ہے، کمیٹی میں گورنر سٹیٹ بنک اور سیکرٹریز تجارت و خزانہ شامل ہیں، جب کہ چیئرمین نشاط چونیاں گروپ شہزاد سلیم، سی ای او انٹر لوپ مصدق ذوالقرنین بھی کمیٹی کا حصہ ہوں گے۔ وزیر اعظم نے ملکی برآمدات میں اضافے کے لیے کمیٹی کو 14 دن کے اندر سفارشات پیش کرنے کی ہدایت کی ہے۔ 
اسی دوران وزیر اعظم محمد شہباز شریف نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی سربراہ سٹالینا جارجیوا سے بھی ٹیلی فون پر رابطہ کیا ہے اور ان سے استدعا کی ہے کہ وہ قرض کے لیے شرائط میں نرمی کریں اور توانائی کی قیمتوں میں اضافہ اور مزید ٹیکس عائد کرنے کے مطالبات پر نظر ثانی کی جائے جو کہ فنڈ کے سٹاف کی سطح کے وفد کے دورہ¿ پاکستان میں بڑی رکاوٹ ہیں، حکومت پاکستان مالی مشکلات سے نکلنے کے لیے بین الاقوامی تعاون حاصل کرنے کی خاطر آئندہ ہفتے کے آغاز میں جنیوا میں ایک کانفرنس بھی منعقد کر رہی ہے، اس موقع پر بھی آئی ایم ایف سربراہ سے وزیر اعظم کی ملاقات متوقع ہے۔ وزیر اعظم نے چینی ہم منصب سے بھی رابطہ کیا ہے جو بظاہر تو خیر سگالی کے جذبات کے تبادلہ کا ذریعہ تھا تاہم اس کا پس پردہ مقصد پاکستان کو درپیش اقتصادی خصوصاً زر مبادلہ کے بحران پر قابو پانے کے لیے تعاون کا حصول بھی تھا، اسی طرح پاک فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر بھی ان دنوں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے سات روزہ سرکاری دورے پر ہیں اس دورے میں بھی جہاں دیگر عالمی، علاقائی اور دفاعی امور پر تبادلہ¿ خیال ہو گا وہیں ان برادر ممالک سے اقتصادی تعاون کے حصول کی کوشش کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ 
حکومت کی جانب سے معاشی بحالی کے لیے کئے جانے والے اقدامات اپنی جگہ بجا ہیں ، مگر ہم عرض کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ وزیر اعظم نے ملکی برآمدات میں اضافہ کے لیے جو کمیٹی تشکیل دی ہے، اس میں کتنے بھی اہم لوگ اور ماہرین صنعت و تجارت کیوں نہ شامل ہوں، یہ ایک غیر ضروری مشق اور وقت کے ضیاع کے سوا کچھ نہیں اس سے بہتر ہوتا وزیر اعظم برآمدی اشیاءپیدا کرنے والی صنعتوں اور برآمدی تاجروں کے نمائندوں سے ملاقات کا اہتمام کر کے ان سے برآمدات میں کمی کی وجوہ اور شکایات سنتے اور ان کے ازالہ کے لیے حکومتی سطح پر فوری اقدامات روبہ عمل لاتے۔ ان کو جو مشکلات در پیش ہیں اور جو رکاوٹیں برآمدات میں اضافہ کی راہ میں حائل ہیں ان کو دور کرنے کے احکام صادر کرتے تاکہ ملکی زرمبادلہ میں جس شدید کمی اور زبردست تجارتی خسارے کا ملک کو سامنا ہے، اس میں بہتری کے فوری آثار سامنے آتے۔ وزیر اعظم ہم سے زیادہ بہتر طور پر اس حقیقت سے آگاہ ہوں گے کہ بین الاقوامی تجارت میں زبردست مقابلے کی موجودہ فضا میں اگر ایک بار کوئی منڈی ہاتھ سے نکل جائے تو اس تک دوبارہ رسائی آسان نہیں بلکہ جان جوکھوں کا کام ہے۔ اس لیے حالات وزیر اعظم سے فوری اقدامات کا تقاضا کرتے ہیں۔
وزیر اعظم اگر واقعی ملکی معاشی بحران کے خاتمہ کے لیے سنجیدہ ہیں تو ہم اپنی ان گزارشات کا اعادہ کریں گے کہ وزیر اعظم سب سے پہلے خود، کابینہ کے ارکان، مجلس شوریٰ کے نمائندوں اور اعلیٰ حکام سب کو سرکاری اخراجات میں بچت پر مائل کریں، سادگی اختیار کرنے کا پابند بنائیں، غیر ضروری آمدورفت اور پروٹوکول کو ختم کیا جائے خاص طور پر بیرونی دوروں پر اٹھنے والے زرمبادلہ کی صورت میں بھاری اخراجات کو کنٹرول کیا جائے، کسی کو ذاتی طور پر بھی ان بے بجا اخراجات کی اجازت نہ دی جائے کیونکہ بہرحال اس مد میں بھی ملک ہی کا زر مبادلہ خرچ ہوتا ہے۔ ایک اور اہم اقدام اگر وزیر اعظم کے لیے کرنا ممکن ہو تو وہ جتنا زور بیرونی ذرائع پر صرف کر رہے ہیں، کچھ توجہ اپنے خاندان، اپنے اتحادیوں اور بیرونی بنکوں میں زرمبادلہ رکھنے والے پاکستانیوں کو اس بات پر آمادہ کریں کہ وہ اپنا زرمبادلہ اور سرمایا وطن واپس لا کر یہاں سرمایا کاری کریں تو انہیں آئی ایم ایف اور دوست ممالک کی منت سماجت کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔ سانپ بھی مر جائے گا اور لاٹھی بھی نہیں ٹوٹے گی....!!!

مزیدخبریں