افواجِ پاکستان کے سربراہان کی کوششیں، موجودہ دور حکمرانوں کےلئے رحمت عوام کے لیے زحمت!!!!


افواجِ پاکستان کے سربراہ جنرل عاصم منیر عہدہ سنبھالنے کے سوا ماہ بعد سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے دورے پر ہیں۔ یہ دورہ دس جنوری تک جاری رہے گا۔ آئی ایس پی آر کے مطابق برادر ملک کی سینئر قیادت سے ملاقاتوں میں باہمی دلچسپی کے امور، فوجی تعاون اور دو طرفہ امور پر بات ہو گی۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ آرمی چیف کا عہدہ سنبھالنے کے بعد افواج پاکستان کے سربراہ سعودی عرب کے دورے پر گئے ہیں یہ روایت ہے اور چلی آرہی ہے۔ ہر چیف آف آرمی سٹاف عہدہ سنبھالنے کے بعد سعودی عرب کا دورہ کرتا ہے اور یہ دورہ اس چیز کا اظہار ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب کے مضبوط معاشی اور دفاعی تعلقات ہیں۔ سعودی عرب ہر مشکل وقت میں پاکستان کی مدد کرتا ہے اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان کے سیاستدانوں نے ہر دور میں فوجی قیادت کی کوششوں سے مناسب انداز میں فائدہ نہیں اٹھایا۔ اس کا بے پناہ نقصان ہوا ہے۔ صرف دو ہزار اٹھارہ سے دو ہزار بائیس تک کے معاملات کو ہی دیکھیں تو یہ چیز واضح ہوتی ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت میں اس وقت کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے سیاسی قیادت کی ہر ممکن مدد کی۔ سعودی عرب ہو، قطر ہو یا متحدہ عرب امارات یا دنیا کے دیگر ممالک ہر جگہ سے انہوں نے اپنے تعلقات کو استعمال کرتے ہوئے حکومت کی مدد کرنے کے لئے ہر ممکن کوشش کی لیکن ناصرف ان کوششوں کو ضائع کیا گیا بلکہ اپنی بدانتظام، نالائقی اور ناکامی کا ملبہ ادارے پر ڈالتے ہوئے سابق آرمی چیف کی شخصیت اور بدقسمتی سے افواج پاکستان کے کردار کو بھی متنازع بنانے کی مہم شروع اور یہ کوششیں بدقسمتی سے آج تک جاری ہیں۔
موجودہ آرمی چیف کی طرف سے بھی اس حوالے سے نہایت اچھی اور مثبت کوششوں کا امکان ہے۔ یقینی طور پر وہ یہ کام ضرور کریں گے کیونکہ پاکستان کے حقیقی محافظ اور دفاع کو یقینی بنانے اور نا قابل تسخیر بنانے والے ادارے کے ذمہ داروں کے نزدیک ریاست سب سے اہم ہے۔ وہ ہمیشہ ریاست کے مفاد کو ترجیح دیتے ہیں۔ بدقسمتی سے سیاستدانوں میں یہ سوچ اتنی شدت کے ساتھ نہیں پائی جاتی وہاں سیاست اور سازش میں کوئی فرق نہیں سمجھا جاتا۔ سیاستدان ہر وقت ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچتے ہیں اور ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے میں لگے رہتے ہیں۔ وہ ملک کے مفادات کو نظر انداز کرتے ہیں، ملکی مسائل حل کرنے کے بجائے لڑائیوں میں مصروف رہتے ہیں۔ آج سیاسی عدم استحکام کی ذمہ داری صرف اور صرف سیاست دانوں پر ہی عائد ہوتی ہے، کوئی لمحہ ایسا نہیں جہاں یہ قبیلہ کوئی تعمیری بات کرے، تعمیری گفتگو کرے، اصلاح کی بات کرے، ہر وقت لڑائی جھگڑا، بدتہذیبی، الزامات بس یہی پاکستانی سیاست کی تصویر ہے اور یہی تلخ حقیقت ہے۔ کاش کہ افواج پاکستان کے سربراہ کی کوششوں سے فائدہ اٹھایا جائے گا اور سیاست دانوں کی سوچ میں کوئی فرق آئے گا۔
سیاست دانوں کو مختلف مقدمات میں مسلسل سہولت مل رہی ہے، کہیں ضمانتیں ہو رہی ہیں، کہیں مقدمات ختم ہو رہے ہیں، کہیں رہائی مل رہی ہے، کہیں منجمد اثاثے واپس ہو رہے ہیں، کہیں قبضے واپس مل رہے ہیں، کہیں نئے کاروبار ہو رہے ہیں، کہیں سب مل جل کر مستقبل میں دوبارہ اقتدار حاصل کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں۔ یعنی وہ جو حکمران ہیں یا وہ جنہیں دوبارہ اقتدار ملنے کی امید ہے ان کی لیے سہولت کی کوئی کمی نہیں لیکن جنہوں نے ووٹ ڈالنا ہے انہیں کوئی سہولت میسر نہیں ہے، کہیں بجلی نہیں تو کہیں گیس کی قلت ہے، کہیں پینے کو پانی نہیں ملتا تو کہیں ادویات کی قلت ہے، کہیں کھانے کو کچھ نہیں تو کہیں بیروزگاری کا بھاری غم جڑا ہوا ہے۔ لوگوں کے لیے دو وقت کی روٹی مشکل ہوتی جا رہی ہے۔ ہر گزرتا دن وسائل سے محروم افراد کے لیے بری خبر لے کر آتا ہے۔ حد تو یہ ہے زندگی گذارنے کے لیے جن بنیادی اشیاء کی ضرورت ہے وہ بھی تیزی کے ساتھ عام آدمی کی پہنچ سے دور نکل رہی ہیں۔
لاہور میں دو ماہ کے دوران آٹے کی قیمت مسلسل آٹھویں بار اضافے کے بعد آٹے کی قیمت ایک سو ساٹھ روپے فی کلو ہو گئی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ چکی آٹا مالکان نے دو ماہ میں مسلسل اٹھویں بار قیمت بڑھائی ہے، فائن آٹے کی چالیس کلو کی بوری بارہ ہزار چھ سو روپے جب کہ پندرہ کلو آٹے کا کمرشل تھیلا دو ہزار ایک سو پچاس روپے میں فروخت ہو رہا ہے مرغی کے گوشت اور انڈے کی قیمت میں بھی اضافہ کردیا گیا ہے جس سے انڈے دو سو ای روپے درجن ہو گئے ہیں۔مرغی کے گوشت کی سرکاری قیمت پانچ سو چوہتر روپے کلو تک جا پہنچی ہے جبکہ بہت سی جگہوں پر دکاندار مرغی کا گوشت چھ سو روپے کلو میں بیچ رہے ہیں۔ کوئٹہ میں رواں ہفتے کے دوران مرغی کے گوشت کی قیمت میں پانچ بار اضافے کے بعد سوا چھ سو روپے فی کلو تک جا پہنچی ہے۔ کراچی میں بھی بعض علاقوں میں مرغی کا گوشت پانچ سو اسی اور کہیں چھ سو روپے کلو میں فروخت کیا جارہا ہے۔ کوئی بتائے کہ جب ایک روٹی پچیس تیس روپے کی ہو جائے گی تو غریب آدمی کیا کھائے گا۔ یومیہ اجرت پر کام کرنے والوں کی بہت بڑی تعداد ہے اور انہیں روزانہ کام ملتا بھی نہیں یہ طبقہ مہنگائی کی اس لہر کا مقابلہ کیسے کر سکتا ہے۔ حکومت کے پاس کوئی پلان نظر نہیں آ رہا اور اپوزیشن جو کہ صرف پاکستان تحریکِ انصاف تک سکڑی ہوئی ہے اسے احتجاج اور عدم استحکام سے زیادہ کسی چیز میں دلچسپی نہیں ہے۔ چونکہ پی ٹی آئی کی قیادت اس بات پر قائل ہے کہ حکومت کو سکون کا سانس نہیں لینے دینا، ہر وقت احتجاج، مظاہرے، پریس کانفرنس اور بیانات جاری کرتے رہنا ہے تاکہ حکومت کوئی اور کام نہ کر سکے، حکومت اس میں الجھی رہے اس حد تک تو پی ٹی آئی کامیاب ہے لیکن عام آدمی کا جینا محال ہو چکا ہے۔ کیا پی ٹی آئی کے نزدیک شہریوں کی ذہنی و جسمانی صحت اور امن و امان کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ کیا حکومت کے پاس اپوزیشن کی اس حکمت عملی کا کوئی توڑ نہیں ہے۔ حکومت انہیں جواب ضرور دے لیکن مہنگائی پر قابو پانے کے لیے بھی تو کسی نے کام کرنا ہے۔ مہنگائی کا یہ طوفان بہت سوں کو بہا کر لے جائے گا۔ لوگ ذہنی مریض بنیں گے، امن و امان کی صورتحال خراب ہو سکتی ہے۔ ملک کے مختلف حصوں میں دیکھیں تو جرائم کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے۔ راہزنی کی وارداتیں بڑھ رہی ہے، انتظامیہ کا کنٹرول کمزور ہو رہا ہے۔ جب تک زندگی آسان نہیں ہو گی، زندگی کی اہمیت میں اضافہ نہیں ہو گا، زندگی گذارنے کی بنیادی اشیاء ارزاں نرخوں پر دستیاب نہیں ہوں گی تو کوئی حکومت کامیاب نہیں ہو سکتی۔ تکلیف دہ امر یہ ہے کہ بااثر لوگوں کو تو ہر دور میں سہولت ملتی رہتی ہے لیکن وسائل سے محروم طبقے کے احساس محرومی میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ 
خبر یہ بھی ہے کہ احتساب عدالت نے وزیر خزانہ اسحاق ڈارکے اثاثہ جات کی ضبطگی کا حکم واپس لے لیا ہے۔ احتساب عدالت نے اسحاق ڈار کے خلاف نیب ریفرنس واپس ہونے کے بعد اکاو¿نٹس اور اثاثوں سے متعلق فیصلہ جاری کیا جس کے بعد وزیرخزانہ کے اثاثوں کی ضبطگی ختم اور بینک اکاو¿نٹس بھی بحال کر دیے گئے ہیں۔عدالت نے کہا کہ اسحاق ڈار سرنڈر کرچکے اور ٹرائل دائرہ اختیار ختم ہونے پر ختم ہوچکا ہے جب کہ پراسیکیوٹر نے بھی کہا کہ عدالت قانون کے مطابق مناسب آرڈر جاری کردے اس لیے اسحاق ڈار کے اثاثوں کی ضبطگی کا آرڈر واپس لیا جاتا ہے۔ احتساب عدالت نے گیارہ دسمبر دو ہزار سترہ کو اثاثہ جات ریفرنس میں اسحاق ڈارکے اثاثوں کی ضبطگی کاحکم دیا تھا۔ اشتہاری ہونے پر بینک اکاو¿نٹس اور لاہور کا گھر بحق سرکارضبط کرنے کے احکامات جاری کیے گئے تھے۔ یہ صرف ایک مثال ہے ایسی کئی مثالیں دائیں بائیں ادھر ادھر نظر آئیں گی۔ اسحاق ڈار اور ان جیسے دیگر بااثر افراد کو رعایت ملنی ہے ملتی رہے لیکن کروڑوں لوگ بھی کسی رعایت اور سہولت کے اتنے ہی حقدار ہیں جتنا کہ عمران خان اسحاق ڈار یا کوئی اور کوئی پالیسی ان کمزور افراد کے لیے بھی بننی چاہیے۔خبر یہ بھی ہے کہ پاکستان نے متحدہ عرب امارات کے بینکوں کو قرضہ لوٹا دیا ہے۔ قرض کی ادائیگی کے بعد زرمبادلہ کے ذخائر 1.2 ارب ڈالر کی مزید کمی کے بعد 4.5 ارب ڈالر رہ گئے۔ ایمرٹس بینک کو ساٹھ کروڑ ڈالرز اور دبئی اسلامک کو بیالیس کروڑ ڈالر کا قرضہ واپس کیا گیا ہے ان ادائیگیوں کے بعد پاکستان کو جنیوا کانفرنس میں غیرملکی امداد کا سہارا درکار ہے، جنیوا کانفرنس میں1.5 ارب ڈالر کی فراہمی کی کوششیں کی جائیں گی۔ یہ حالات ہم سب کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہیں۔ حالات میں بہتری کا کوئی امکان نہیں اور سیاست دان ہیں کہ انہیں ایک دوسرے کو برا بھلا کہنے سے فرصت نہیں ہے۔ کل تک جنہیں مہنگائی مصنوعی لگتی تھی آج وہ مہنگائی کے خلاف مظاہرے کر رہے ہیں اور وہ جو کل تک مہنگائی کو سب سے بڑا مسئلہ سمجھتے تھے آج بے بسی کی تصویر بنے نظر آتے ہیں لیکن دو وقت کا کھانا صرف غریب کا ہی متاثر ہوا ہے سیاست کرنے والوں کو آج بھی کوئی مسئلہ نہیں نہ کل کوئی مسئلہ ہو گا نہ ہی گذرے وقت میں انہیں کوئی تکلیف تھی۔

ای پیپر دی نیشن