کیا ہم واقعی ایک بزدل قوم ہیں؟


سب سے بڑا مسئلہ تو یہ ہے کہ کیا واقعی ہم اپنے آپ کو قوم کہلانے کے اہل بھی ہیں یا نہیں؟مجھے افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ 75 سال گزرنے کے باوجود ہم اپنے آپ کو قوم نہیں کہہ سکتے۔ ہم میں صوبائیت پرستی اس حد تک سرایت کر چکی ہے کہ ہم سب کچھ ہیں لیکن پاکستانی نہیں بن سکے۔ اسی لیے مختلف صوبوں میں مختلف تحریکیں چل رہی ہیں اوراِن تحریکوں نے وطنِ عزیزکی سالمیت کا وجود کینسر زدہ کر دیاہے۔ بجائے ملکی حالات ٹھیک کرنے کے ہمارے سیاستدان ایک دوسرے کو زیر کرنے کے لیے مسلسل حالتِ جنگ میں ہیں جس سے ساری قوم مصیبت میں گرفتار ہے۔ ہر شخص پریشان ہے کہ معلوم نہیں کل کیا ہوگا۔ آدھا پاکستان ہم پہلے ہی کھو چکے ہیں ۔ہمارے سیاستدانوں نے ملک کو تباہی کی معراج تک پہنچا دیا ہے۔ معاشی طور پر ملک کا بھٹہ بیٹھ چکا ہے۔ قرض بڑھ بڑھ کر بحرالکاہل بن چکا ہے۔ہر گلی محلے میں مدارس کی بہتات ہے۔ لیکن انسانی اخلاقیات کا جنازہ نکل چکا ہے۔ اس وقت جبکہ ملک کسمپرسی کی حالت میں ہے۔ عوام کے لیے دو وقت کی روٹی کا حصول مشکل ہو چکا ہے۔ خیال تھا کہ کچھ محبِ وطن لوگ آگے بڑھیں گے اور ملک کو اِس دلدل سے نکالیں گے مگر افسوس کہ ہمارے بیشتر سیاستدانوں اور مذہبی رہنماوں کی حب الوطنی ذاتی عیاشیوں میں گم ہو چکی ہے۔ اس وقت کوئی ایسی برائی نہیں جو ہمارے معاشرے میں موجود نہ ہو اور تو اور جتنے بڑے سیاستدان ہیں ا±ن پر اتنے بڑے ڈاکو اور لٹیرے ہونے کے الزامات ہیں۔ دبئی اور لندن میں جائیدادیں ایسے تو نہیں بن گئیں ۔ مزید بدقسمتی کہ الزام زدہ لوگ اپنی صفائی دینے کو بھی تیار نہیں۔ ایک بھارتی تجزیہ نگار نے اپنے تجزیے میں الزام لگایا ہے کہ حالیہ سیلاب پاکستانی سیاستدانوں کے لیے رحمتِ خداوندی ثابت ہوا ہے۔ کیونکہ پوری دنیاسے انہیں امداد ملی ہے اور سیلاب زدہ عوام تک ایک پیسہ بھی نہیں پہنچا۔ سارا پیسہ دبئی ، سوئیزر لینڈ اور لندن پہنچ چکا ہے۔عوام کیا کریں کہاں جائیں؟یہ سب اچھی یا ب±ری باتیں اپنی جگہ۔دعا گو ہیں کہ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو ہدایت دے۔ آمین !لیکن اِس وقت سب سے تکلیف دہ بات ملک میں بڑھتی ہوئی دہشتگردی ہے۔ یہ شروع تو ہوئی تھی جنرل باجوہ صاحب کی ریٹائرمنٹ کے آخری دنوں میں اور پھر یہ وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی ہی گئی۔اب کوئی ایسا دن نہیں جس دن کوئی سانحہ نہ ہوا ہو۔ سوال یہ ہے کہ ۔ کیا ہم واقعی اتنی گئی گزری قوم ہیں کہ جس کا دل آتا ہے مار کر چلا جاتا ہے اور ہم کچھ نہیں کر سکتے اس وقت دو بڑی دہشتگرد تنظیمیں پاکستان کے خلاف بر سرِپیکار ہیں۔ اول تحریک طالبان پاکستان اور دوم بلوچ لبریشن آرمی۔ ایسے نظر آتا ہے کہ یہ دونوں تنظمیں آپس میں مل چکی ہیں اور ایک دوسرے کی مدد کر رہی ہیں جس انداز میں یہ لوگ کارروائیاں کر رہے ہیں ا±ن سے اندازہ ہوتا ہے کہ اِن کے پیچھے کوئی بہت ہی منظم طاقت موجود ہے جو انہیں تربیت دے رہی ہے اور دہشتگردی کی کارروائیوں کی رہنمائی کر رہی ہے۔ اس طاقت کا اندازہ لگانا کوئی مشکل نہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہم ا±سے روک کیوں نہیں پا رہے۔ پچھلے چالیس سالوں سے ہم افغانیوں کی مدد کر رہے ہیں۔ اِن کی وجہ سے ہم نے روس سے اپنے تعلقات خراب کیے۔ امریکہ کو ناراض کیا۔ تیس لاکھ افغانیوں کی عرصہ دراز سے میزبانی کر رہے ہیں۔ دوسال پہلے جب طالبان نے کابل پر قبضہ کیا تو پاکستان اِس خوشی میں طالبان کے ساتھ شامل تھا۔ پاکستان پہلا ملک تھا۔ جس نے اپنی مجبوریوں کے باوجود افغانستان کی مدد کی۔ خیال تھا کہ اب افغانستان کے ساتھ ہمارے تعلقات بہت اچھے ہونگے اور تحریکِ طالبان پاکستا ن اب پاکستان میں دہشتگردی کی کارروائیاں بند کر دے گی کیونکہ افغان طالبان پاکستانی طالبان کو اپنی سر زمین کبھی استعمال نہیں کرنے دیں گے۔ مگر بدقسمتی سے ہماری خوش فہمی غلط ثابت ہوئی۔ تحریکِ طالبان کی کارروائیوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ اعلیٰ تربیت یافتہ انٹیلی جنس میں ماہر اور جدید ترین ہتھیاروں سے لیس ہیں جو تا حال ہمارے پاس نہیں ہیں۔ ایسے نظر آتا ہے کہ بھاگتے ہوئے امریکیوں کے ہتھیار اِن لوگوں کے ہتھے چڑھ گئے ہیں جن میں اعلیٰ ہتھیار بمع سنائپر رائفل اور رات کو دیکھنے والے آلات بھی موجود ہیں جن سے یہ لوگ آرام سے رات کو کارروائیاں کر سکتے ہیں۔ اِن کی انٹیلی جنس بھی کمال کی ہے کہ رات کو حملہ ترتیب دیتے ہوئے انہیں ایک ایک انچ زمین اور ایک ایک شخص کی موجودگی کا علم ہوتا ہے۔ چند سال پہلے ان لوگوں نے واناجاتے ہوئے ایک پوری فوجی بٹالین کو یرغمال بنا لیا تھا۔ اِن لوگوں سے مقابلہ کر نے کے لیے پاکستان کو اعلیٰ ہتھیار اور بہت اچھی تربیت چاہیے۔ ا±مید ہے کہ ہمارے صاحبِ اقتدار لوگ اِس موضوع پر سوچیں گے۔ سب سے تکلیف دہ بات یہ ہے کہ بلوچ لبریشن آرمی کی کارروائیاں کافی عرصے سے جاری ہیں۔ اب تو پڑھے لکھے لوگ اس میں شامل ہورہے ہیں اور جس تحریک میں اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ شامل ہو جائیں تو ا±سے روکنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ اِسی لیے کہا جاتا ہے کہ تحریکِ پاکستان علی گڑھ یونیورسٹی میں پروان چڑھی اور بنگلہ دیش کی تکمیل ڈھاکہ یونیورسٹی میں ہوئی۔ اگر اب بھی ہم بلوچ لبریشن آرمی کی کارروائیوں کو نہ سمجھیں تو غلطی ہماری ہوگی اور کسی کی نہیں۔ پچھلے تین ماہ سے فاٹا میں تحریکِ طالبان پاکستان کی شرمناک کارروائیاں جاری ہیں۔ جن سے ہمارا بہت نقصان ہوا ہے۔ حضرت علی کا فرمان کتنا درست ہے کہ ”جس کے ساتھ بھلائی کرو ا±س کے شر سے بچو۔“آخر ہمارا مسئلہ کیا ہے کہ ہم افغانستان کی دھمکیاں اور دہشتگرد کارروائیاں برداشت کرنے پر مجبور ہیں۔ اس سے اور بزدل قوم بھلا کیا ہوگی۔ 

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...