گوجرانوالہ بار ایسوسی ایشن اور نیشنل کریکٹر 


جمہوریت ، قلم اور پہیے سے بہتر کوئی انسانی ایجاد نہیں۔ پہاڑوں سے بہتا پانی ہر علاقے کی مٹی کی خاصیت لے کر آگے بڑھتا ہے ۔ یورپ سے جمہوریت ادھر پہنچتی پہنچتی اپنی خالص حالت میں رہی ہی نہیں۔ مخالف رائے کا احترام اور اکثریتی رائے کو تسلیم کرنا ہی جمہوریت کی اساس ہے ۔ ہمارے کرپٹ معاشرے میں جمہوریت نے کوئی اوررنگ ڈھنگ اختیار کر لیا ہے ۔ ہمارے دیہاتی معاشرے میں اور بہت حد تک شہری معاشرے میں بھی جھوٹا سچا نہیں ہوتا، کمزور اور طاقتور ہوتا ہے ۔ سو ہماری جمہوریت کی طرز بھی انوکھی ہے ۔ اب تو ہم کیا ڈھٹائی سے کہنے لگے ہیں کہ ہماری سیاست اپنی ہے ۔ ہماری سیاست کے انداز، طور اطوار دیسی ہیں۔ داد دیجیے فرماتے ہیںکہ کبڈی کھیلنے والوں پر کرکٹ اور گالف کھیلنے والے اپنے قواعد و ضوابط نافذ نہیں کر سکتے ۔ یہ صرف سیاست کا ہی معاملہ نہیں ہمارا پورا سماج زوالِ مسلسل کا شکار ہے ۔ زوال جب کسی سماج کا رخ کرتا ہے تو سماج کیلئے ممکن نہیں کہ اس میں کمال کے چند جزیرے آباد کر سکے ۔ 
اپنی بات کی مزید وضاحت کرتا ہوں۔ 
گئے برس جسٹس کامران شیخ کی خوشدامن وفات پاگئی تھیں۔ان کے سسرالی گھر گوجرانوالہ میں لوگ تعزیت کیلئے آجا رہے تھے ۔ جسٹس صاحب کے آس پاس گوجرانوالہ کے اہم کاروباری لوگ گھیرا ڈالے بیٹھے تھے ۔ ڈاکٹروں کی لوٹ مار موضوع سخن تھا۔ ہر شخص بڑھ چڑھ کر اپنے تجربات اور واقعات سنا رہا تھا۔ پڑوس کی ایک مسجد سے اذان کی آواز بلند ہوئی ۔ سبھی حاجی نمازی اٹھ کھڑے ہوئے۔ وہ مسجد روانہ ہونے لگے کہ میں بولا۔میری بات سنتے جائیے ۔ نماز کے بعد اللہ میاں سے یہ عرض کرنا نہ بھولےے کہ ہمارے سیاستدان، افسر،سیاسی کارکن ، تاجر ، دکاندار ، مفتی ، مولوی ،پولیس، وکیل ، جج سبھی نیک پاک ایماندار ہیں۔ اللہ جی! ان ڈاکٹروں کو بھی ایماندار بنا دیجیﺅ تاکہ ہمارا سارا معاشرہ بھی پاک صاف ہو جائے ۔ 
ایک واقعہ اور یاد آگیا۔ 
سیشن کورٹ گوجرانوالہ میں سول عدالتوں کی نئی بلڈنگ کی افتتاحی تقریب تھی ۔ سینئر سول جج کے کمرہ¿ عدالت میں نیچے پڑے میز پر چائے کے لوازمات دھرے تھے ۔ ایک طرف سیشن جج ریاض الحسن علوی ضلعی عدلیہ کے ساتھ کھڑے تھے اور دوسری جانب مقامی وکلاء۔ میں نے پوچھا۔علوی صاحب ”لڈو پیڑوں “سے لدی پھندی اس میز کو دیکھ کر گمان گزرتا ہے کہ شاید جج پاس ہو گئے ہوں۔ کیا جج پاس ہو گئے ہیں ؟ ادھر سے جواب میں خاموشی تھی ۔ اب ایک اور سوال سامنے ہے ۔ کیا وکلاءپاس ہو گئے ہیں؟ آپ خود اس کا جواب سوچئے ۔ البتہ میں یہ بتائے دیتا ہوں ۔ جب میری سول جج بیٹی سی ایس ایس کر گئی تو میں نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیاکہ اس بیچاری کی ”وکلاءشائستگی“سے جان چھوٹ گئی۔ یہ بتانے کی چنداں ضرورت نہیں کہ شائستگی میں بار عہدیدار ، عام وکلاءسے بہت آگے پائے جاتے ہیں۔ یہ کتابیں نہیں پڑھتے جنازے پڑھتے ہیں۔ بار لائبریریوں میں نہیں صرف وکلاءکی شادیوں میں دیکھے جاتے ہیں۔ ان کی عدالتوں میں آمدو رفت بار کے عہدے کی میعادسے شروع ہوتی ہے اور عہدہ ختم ہونے پر ختم ہو جاتی ہے ۔ وکیل کرنے کی بجائے جج کر لینے کی دانش پرانی ہوئی ۔ اب بھاری جیب والے کلائنٹ کچہری یہ پوچھ کر آتے ہیں ان دنوں بار کا صدر سیکرٹری کون ہے ؟ جب کسی معاملہ میں مال منال ملوث ہو جائے تو کرپشن عود کر آتی ہے ۔ سو ان دنوں بار ایسوسی ایشن کے الیکشن دھونس دھاندلی میں ہمارے عام الیکشنوں سے کچھ آگے ہی ہیں ۔ ووٹوں کی خرید و فروخت بھی معیوب نہیں رہی ۔ حلف ،قسم ،قرآن عام اٹھائے جاتے ہیں۔ بندہ بشر کبھی اپنا عہد پورا کر سکتا ہے کبھی نہیں۔ اللہ معاف کرنے والا ہے ۔ اب وہ زمانے ہوا ہوئے جب فرخ محمود سلہریا جیسے باعزت اور کم آمیز لوگ بار کے صدر ہو جایا کرتے تھے ۔ فرخ نے اپنے مرحوم بیٹے کی یاد میں سیشن کورٹ کے احاطہ میں مصطفی کمال لائبریری بنائی ہے۔ سنوکر کلب بنا لیتے تو زیادہ اچھا ہوتا۔ چیمبر تعمیراور فروخت کر کے نہا ل ہوجانے والی وکلاءقیادت کو یہ لائبریری کھٹکتی بہت ہے ۔ وہ لائبریری سے بچی اک نکڑ پر ہی چیمبرز بنا سکے ہیں۔ لائبریری نہ ہوتی تو اللہ جانے کتنے چیمبربن جاتے ۔ اک زمانہ میں سعودی وزیر خزانہ بھی خزانہ ایک صندوق میں تالا لگا کر اپنی چارپائی کے نیچے رکھا کرتا تھا۔چیمبرز فروخت کر کے رقم بھی بینک بار اکاﺅنٹ میں جمع نہیں کروائی گئی ۔ ہم وکلاءقیادت کی نیت پر شک نہیں کرتے ۔ آخر چارپائی ، صندوق ، تالا ان کے ہاں بھی تو ہوگا۔ 
کامونکی ، نوشہرہ ورکاں میں الگ کچہریاں بن جانے سے گوجرانوالہ میں وکالت ختم ہو کر رہ گئی ہے ۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے وکیلوں کے لئے رزق کے کئی اور در کھول دیئے ہیں۔ مجھے ”وچلی گل“ جاننے والے بشیر اللہ چیمہ ایڈووکیٹ نے بتایا کہ پچھلے برس الیکشن کمیٹی نے الیکشن میں امیدواروں کے ہاتھ سات سو پرچیاں ،فی پرچی پانچ ہزار روپے سے لے کر بیس ہزار روپے تک فروخت کی تھیں۔ اس برس امید ہے کہ ِبکری اور زیادہ ہوگی ۔ریٹ بھی بڑھ جائے کہ مہنگائی کے باعث ہر چیز مہنگی ہو گئی ہے۔ پھر یہ لوگ کائیاں اتنے ہیں کہ تھوڑی تھوڑی پرچیاں ہر امیدوار کو بیچ ڈالتے ہیںتاکہ کوئی شکایت بھی نہ کر سکے ۔ پھر اپنی مرضی کے امیدوار کو اتنی پرچیاں دے دیتے ہیں کہ اس کی کامیابی یقینی ہو جاتی ہے ۔ایک با ضمیر چیئرمین الیکشن بورڈ نے پرچی مافیا کا حصہ بننے کی بجائے مستعفی ہونے کو ترجیح دی ۔ اسے اگلے برس بار کی صدارت تک کی آفر کی گئی ۔ لیکن اس کی جانب سے انکار تھا۔ نئے چیئرمین کی تقرری اللہ جانے کن شرائط پر کی گئی ہے ۔ قائد اعظم کے لیگل ایڈوائزر این ایم کوتوال نے ایک انٹر ویو میں بتایا کہ ایک مرتبہ نیشنل کریکٹر پر بات ہو رہی تھی ۔ میں نے رائے دی کہ نیشنل کریکٹر پیدا ہونے میں ابھی بیس سال اور لگےں گے ۔ اس پر حضرت قائد اعظم نے فرمایا ۔ نہیں، نیشنل کریکٹر بننے میں ایک سو سال لگتا ہے۔ حضرت قائد اعظم اپنی قوم کے بارے کتنے خوش فہم تھے ۔ انہیں نیشنل کریکٹر کیلئے ایک سو سال نہیں، کئی سو سال چاہئیں۔ 

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...