موجودہ حکومت نے اِدھر حلف اٹھایا، اُدھر پاکستان میں طوفانی بارشوں کا سلسلہ شروع ہوگیا ،جس نے بعد میں سنگین سیلاب کی شکل اختیار کرلی۔ سوات،جنوبی پنجاب،زیریں سندھ، بلوچستان کے متعدد علاقے سیلاب کی آفت کے سامنے ڈھیرہوگئے۔سیلاب سے ملک کا ایک تہائی رقبہ متاثر ہوا اور تین کروڑ انسان اپنے گھربار اور مال مویشی سے محروم ہوگئے ۔ سڑکوں اور ریلوے ٹریک کا ہزاروں میل حصہ ناکارہ ہوگیا۔ وزیراعظم شہبازشریف نے سیلاب زدگان کے ریسکیو اور ریلیف کےلئے دن رات ایک کردیئے، انہوں نے ملکوں ملکوں دورے کئے اور اس سنگین مسئلے کی طرف جنرل اسمبلی کے ارکان کی توجہ دلائی۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بھی سیلاب زدہ علاقوں کے دورے پر آئے اور دنیا بھرکے ممالک سے پاکستان کی امداد کی اپیل کی۔ مصر کے شہر شرم الشیخ میں ماحولیاتی تبدیلیوں پر ایک عالمی کانفرنس منعقد ہوئی ۔ جس میں وزیر اعظم شہباز شریف نے ایک ہی نکتے پر زور دیا کہ ماحولیاتی تبدیلی میں پاکستان کا ایک فیصد بھی حصہ نہیں ، یہ سارا کیا دھرا ترقی یافتہ ممالک کا ہے ، ان کا فرض بنتا ہے کہ وہ پاکستان میں سیلاب زدگان کی بحالی کیلئے ہاتھ بٹائیں ۔ اس کانفرنس میں بھی یواین او کے جنرل سیکرٹری نے پاکستان کے اس جائزمطالبے کی تائید کی۔ وزیرخارجہ بلاول بھٹونے بھی کمیٹی اجلاسوں میں ماحولیاتی تباہی کی طرف توجہ مبذول کروائی ۔ شرم الشیخ کانفرنس کے اعلامئے میں پاکستان کے یہ تمام جائز مطالبات منظور کرلئے گئے اور ترقی یافتہ صنعتی ممالک پر بھی زور دیا گیا کہ وہ آگے بڑھیں اور جو ممالک ان کی وجہ سے ماحولیاتی تباہی کا شکار ہورہے ہیں، ان کی بھرپور امداد کریں۔وزیراعظم شہبازشریف چین سے بیٹھنے والے نہیں ہیں، انہوں نے ایک طرف تو قومی وسائل سیلاب زدگان کی بحالی کیلئے جھونک دیئے، دوسری طرف دوست ممالک سے امداد حاصل کرکے سیلاب زدہ علاقوں میں ریلیف کا کام کرکے لوگوں کے آنسو پونچھے۔اب لوگوں کو احساس ہوچلا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی سے ہونے والی تباہی کا شکار ہونےوالوں کونظرانداز نہیں کیا جاسکتا ، چنانچہ اسی سلسلے میں آج جنیوا میں ایک عالمی کانفرنس منعقد ہورہی ہے ۔ جس میں پاکستان ایک بارپھر اپنا موقف بھرپور انداز میں پیش کرے گا۔اس مقصد کیلئے وزیراعظم شہباز شریف نے برطانیہ کے اخبار روزنامہ ”دی گارڈین “ میں ایک تفصیلی آرٹیکل لکھا ہے ، جس میں انہوں نے حقیقت پسندانہ انداز میں پاکستان کے موقف کوپیش کیا ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ جنیوا کانفرنس ملک میں سیلاب کی تباہ کاریوں سے نمٹنے اور بحالی و تعمیر نو کے ساتھ ساتھ موسمیاتی اعتبار سے پاکستان کو ایک مضبوط ملک بنانے کے ایک طویل اور مشکل سفر کا آغاز ہے ، اس کے نتائج سے لاکھوں سیلاب متاثرین کو یقین ملے گا کہ انہیں فراموش نہیں کیا گیا، عالمی برادری بحالی اور تعمیر نو کی کوششوں میں مدد کرے گی، جنیوا کانفرنس ہماری مشترکہ انسانیت اور سخاوت کے جذبے کی علامت اور ان تمام لوگوں اور ممالک کے لئے امید کا ذریعہ بنے گی جنہیں مستقبل میں قدرتی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اپنے مضمون میں وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان میں تباہ کن بارشوں اور سیلاب سے 1,700 افراد کی جانیں گئیں، 33 ملین لوگ متاثر ہوئے جبکہ سندھ اور بلوچستان صوبوں کے بڑے حصے بدستور زیر آب ہیں۔ پاکستان میں غذائی عدم تحفظ کے شکار افراد کی تعداد دوگنی ہو کر 14 ملین ہو گئی ہے، مزید 9 ملین افراد انتہائی غربت کا شکار ہو گئے۔ انہوں نے کہا کہ سیلاب زدہ علاقے اب مستقل جھیلوں کے ایک بڑے سلسلے کی طرح نظر آتے ہیں، اس پانی کو ایک سال سے کم وقت میں نہیں نکالا جا سکتا جبکہ تشویش یہ ہے کہ ان علاقوں میں جولائی 2023 ءتک دوبارہ سیلاب آسکتا ہے۔ وزیر اعظم نے بتایا کہ پاکستان صرف سیلاب سے ہی نہیں بلکہ بار بار رونما ہونے والی آب و ہوا کی شدتوں سے بھی دوچار ہے، اس سے پہلے 2022 ءمیں ملک ایک ہیٹ ویو کی لپیٹ میں رہا جس سے خشک سالی اور جنگلات میں آتشزدگی کے واقعات بھی رونما ہو چکے ہیں۔ مزید برآں شہباز شریف نے کہا کہ پاکستانیوں نے اس تازہ ترین آفت کا مثالی انداز میں مقابلہ کیا۔ پہلے سے ہی شدید معاشی بحران کے باوجود حکومت نے 20 لاکھ سے زیادہ گھرانوں کو 250 ملین ڈالر سے زیادہ کی براہ راست نقد رقم کی منتقلی کے لئے فنڈز کا انتظام کرنے کے لئے کوشش کی۔ مجموعی طور پر ہم اپنے محدود وسائل سے ہنگامی امداد میں تقریباً 1.5 بلین ڈالر جمع کرنے میں کامیاب ہوئے۔ انہوں نے کہا ہے کہ ہم عالمی برادری اور پاکستان کے دوستوں کے شکر گزار ہیں جنہوں نے بدترین صورتحال سے بچنے میں ہماری مدد کی جبکہ عالمی ادارہ صحت نے اس صورتحال کو اعلیٰ سطح کی صحت کی ایمرجنسی قرار دیا تھا، لیکن ہم موثر کام کی وجہ سے امراض کو پھیلنے سے روکنے کے ساتھ ساتھ شہروں اور دیہاتوں کے درمیان تباہ شدہ مواصلاتی نیٹ ورک کو بھی بہت جلد بحال کرنے میں کامیاب رہے۔ انہوں نے کہا کہ 20 لاکھ سے زیادہ گھر، 14,000 کلومیٹر سڑکیں اور 23,000 سکول اور کلینک تباہ ہو چکے ہیں۔ عالمی بینک اور یورپی یونین کے تعاون سے کیے گئے آفات کے بعد کی ضرورتوں کے تخمینہ سے اندازہ لگایا گیا ہے کہ سیلاب سے ہونے والے نقصانات 30 ارب ڈالر سے تجاوز کر گئے ہیں جو کہ پاکستان کی کل جی ڈی پی کے 10ویں حصہ کے برابر ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اکیلااس چیلنج سے نہیں نمٹ سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل اور میں9 جنوری کو جنیوا میں کلائمیٹ ریزیلیئنٹ پاکستان انٹرنیشنل کانفرنس کی مشترکہ میزبانی کر رہے ہیں۔ کانفرنس میں عالمی رہنما، بین الاقوامی اداروں اور انسانی ہمدردی کی تنظیموں کے نمائندے اور پاکستان کے دوست اس کے ساتھ تعاون اور یکجہتی کا اظہار کریں گے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ہم سیلاب کے بعد کی تعمیر نو اور بحالی کے لیے ایک جامع روڈ میپ بھی پیش کریں گے، جسے ورلڈ بینک، اقوام متحدہ، ایشیائی ترقیاتی بینک اور یورپی یونین کے تعاون سے تیار کیا گیا ہے۔ متاثرہ علاقوں میں بحالی اور تعمیر نو کے فوری چیلنجوں سے نمٹنے کےلئے تین سال کی مدت میں کم از کم 16.3 بلین ڈالر کی فنڈنگ کی ضرورت ہے۔ اس ضمن میں پاکستان آدھی رقم اپنے وسائل سے پورا کرے گا لیکن اس فرق کو پورا کرنے کے لئے ہمیں اپنے دوطرفہ اور کثیر جہتی شراکت داروں کی مسلسل معاونت درکار ہو گی۔ شہباز شریف نے کہا کہ پاکستان کو موسمیاتی لچک پیدا کرنے کے لئے طویل المدتی وژن کے تحت 10 سال کی مدت میں 13.5 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کی ضرورت ہوگی۔ بہتر مواصلاتی انفراسٹرکچر اور آبپاشی کے زیادہ مضبوط نظام کی تعمیر اور مستقبل کی قدرتی آفات کے اثرات کو کم کرنے کے لیے موثر ابتدائی انتباہی نظام کو ڈیزائن کرنا پاکستان کے لئے اب ایک لازمی امر ہے۔انہوں نے کہا کہ جنیوا کانفرنس ایک طویل اور مشکل سفر کا آغاز ہے، اس سے لاکھوں متاثرین کو یقین ملے گا کہ انہیں فراموش نہیں کیا گیا اور عالمی برادری ان کی بحالی اور تعمیر نو کی کوششوں میں مدد کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ ہم سب فطرت کی قوتوں کے رحم و کرم پر ہیں جو سرحدوں کا لحاظ نہیں کرتیں اور ہم صرف مشترکہ کوششوں سے ہی ان مسائل پر قابو پا سکتے ہیں۔ امید ہے کہ جنیوا کانفرنس ہماری مشترکہ انسانیت اور سخاوت کے جذبے کی علامت اور ان تمام لوگوں اور ممالک کےلئے امید کا ذریعہ بنے گی جنہیں مستقبل میں قدرتی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔