کیرالہ میں بینظیربھٹو کے پوسٹرز پر بی جے پی تلملا اٹھی
بھارتی ریاست کیرالہ میں وہاں کی دو سیاسی جماعتوں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کی خواتین شاخ اور آل انڈیا ڈیموکریٹک ویمنز ایسوسی ایشن کے زیراہتمام آج کل ایک قومی کانفرنس ہو رہی ہے۔ اب ظاہر سی بات ہے کہ اس کانفرنس میں مودی جی یا آدتیہ یوگی کی خدمات کا تذکرہ تو نہیں ہوگا‘ اس میں عالمی و قومی سطح پر اعلیٰ کارکردگی اور کارنامے دکھانے والی خواتین کا ذکر ہوگا۔ پاکستان کی سابق وزیراعظم محترمہ بینظیربھٹو ان عالمی خواتین میں شامل ہیں جنہیں ان کی اعلیٰ تعلیمی کارکردگی‘ سیاسی میدان میں آمریت کے خلاف دلیرانہ جدوجہد ، عوام کے اور خواتین کے حقوق کی جنگ لڑنے اور عالم اسلام کی پہلی خاتون وزیراعظم بننے کا اعزاز پانے پر ہمیشہ یادرکھا جائے گا۔ اب کیرالہ میں ہونے والی اس کانفرنس کے حوالے سے شہر کے اہم علاقوں میں بینظیربھٹو کی تصویر کے ساتھ پوسٹرز لگائے گئے۔ اب بھلا یہ بات انتہاپسند حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنماﺅں کو کہاں آسانی سے ہضم ہونی تھی۔ سو وہ چلا اٹھے اور اپنی گز بھر لمبی لمبی زبانوں سے زہر اگلنے لگے۔ انہیں سب سے بڑی تکلیف یہ ہے کہ بینظیربھٹو ان کے دشمن ملک کی وزیراعظم تھیں جو آج تک بھارت کو نقصان پہنچانے کے درپے ہے۔ اس حوالے سے کیرالہ میں بی جے پی کے کارکنوں کی بات تو چھوڑیں‘ ان کے رہنما بھی بوڑھی عورتوں کی طرح رونے دھونے لگے۔ انہیں پاکستان کے نام اور ہماری ہر چیز سے سخت تکلیف ہوتی ہے جس کا اظہار ان کے پست ذہنی بیانات سے ہوتا ہے۔ انتہاپسندی کی یہ آگ جس طرح پھیل رہی ہے‘ اس سے کسی اور کو کچھ ہو نہ ہو‘ خود بھارت کیلئے تباہی کا پیش خیمہ ثابت ہوگی۔
٭٭........٭٭........٭٭
چیف سلیکٹر شاہد آفریدی نے قومی کرکٹرز کو گھر دعوت پر بلا لیا
یہ ہوتے ہیں ہم آہنگی پیدا کرنے کے طریقے۔ لالے دی جان شاہدآفریدی کی تو ہر ادا نرالی ہے۔ وہ کریز پر ہوں یا ڈریسنگ روم میں‘ ہمہ وقت وہ اپنے پرستاروں کیلئے مرکز نگاہ بنے ہوتے ہیں۔ ہر وقت ان کے چہرے پر مسکراہٹ رہتی ہے۔ شاہدآفریدی جہاں خوش شکل ہیں‘ وہاں بڑے دل والے بھی ہیں۔ اب انہیں جب سے پی سی بی نے چیف سلیکٹر بنایا ہے‘ وہ اپنے اور کھلاڑیوں کے درمیان فاصلے کم کرنے کی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں تاکہ ان کے اور ان کی ٹیم کے درمیان اعتماد اور دوستی کا رشتہ مضبوط ہو۔ اس طرح وہ کھلاڑیوں کے ذہن پر خوف بنا کر سوار نہیں ہونگے بلکہ ان کے دلوں میں محبت بن کر رہیں گے۔ رہی بات دل کی تو اس پر یاد آیا سیانے کہتے ہیں دل کو فتح کرنے کا راستہ معدے سے ہوکر جاتا ہے۔جبھی تو بزرگ خواتین لڑکیوں کو معدے کے راستے شوہروں کا دل جیتنے کیلئے اچھے اچھے کھانے پکانے کا گر سکھاتی تھیں۔ انہوں نے گزشتہ روز اپنی ٹیم کے تمام کھلاڑیوں کو گھر دعوت پر بلایا اور جس طرح خود دروازے پر کھڑے ہوکر ہر کھلاڑی کا پرتپاک استقبال کیا‘ اس سے کھلاڑیوں کا سیروں خون بڑھ گیا ہوگا۔ یہ ہوتا ہے محبت و احترام کا رشتہ۔ خدا کرے ہمارے کھلاڑیوں میں اپنے چیف سلیکٹر کی طرح میدان میں جان لڑانے کا جذبہ پیدا ہو اور برقرار رہے تو ہم کرکٹ کے میدان پر تادیر اپنی دھاک جمائی رکھ سکتے ہیں۔ اسی جذبے کے تحت ہماری ٹیم یکجان ہوکر کھیلے گی تو فتح ان کے قدم چومے گی۔
٭٭........٭٭........٭٭
دائیں یا بائیں‘ عمران کی زخمی ٹانگ موضوع بحث بن گئی
اب مخالف جوچاہے کہیں‘ اس کے جواب میں پی ٹی آئی والے بھی خاموش نہیں رہیں گے۔ ایک تو معلوم نہیں تصویر میں یہ دائیں اور بائیں ٹانگ کے تنازعہ سے کون سا مسئلہ کشمیر حل ہونا ہے یا پھر آٹے کی قیمت کم ہونی ہے۔ اس سارے معاملے میں ایک بات تو واضح ہوئی ہے کہ عوام اب باریک بین ہو گئے ہیں۔ وہ ذرا ذرا سی بات پر بھی گہری توجہ دیتے ہیں۔ اب پی ٹی آئی والے کہہ رہے ہیں کہ یہ سب فوٹوشاپ کا کمال ہے۔ دائیں کو بائیں یا بائیں کو دائیں ٹانگ دکھانا کوئی بڑی بات نہیں۔ آسانی سے ایسا کیا جاتا ہے۔ اب اندر کی بات وہی جانے جو واقف کار ہو مگر لوگ تو وہ تصویر دیکھ کر ہی بات کر رہے ہیں جو گزشتہ روز اخبارات میں شائع ہوئی جس کی وجہ سے اس ذہنی خلجان نے جنم لیا ہے۔ لوگ پریشان کم حیران زیادہ ہیں کہ آخر کونسی ٹانگ زخمی ہے۔ زخم کوئی بطخ تو نہیں ہوتی کہ ایک غوطہ لگایا اِدھر نکلی‘ دوسرا غوطہ لگایا اُدھر جا نکلی۔ بہرحال پہلے ہی بہت سے غموں نے عوام کا جی ہلکان کر رکھا ہے جو ٹانگ سے زیادہ اہم ہیں۔ ملکی حالات‘ معاشی حالات‘ روزگار‘ مہنگائی جیسے جان لیوا امراض کے ہوتے ہوئے اس زخمی ٹانگ پر اتنی توجہ دینا درست نہیں۔ بقول شاعر
اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کے سوا
راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا
اس لئے ہمیں زیادہ توجہ ایسے مسائل کے حل پر دینی چاہئے جو ہماری جان نہیں چھوڑ رہے۔ رہی بات کونسی ٹانگ پر زخم تھے‘ پلستر تھا وہ خان صاحب جانیں‘ پی ٹی آئی والے جانیں یا مخالفین ۔عام آدمی کو اس بارے میں زیادہ دلچسپی نہیں۔
٭٭........٭٭........٭٭
میکسیکو میں بدنام سمگلر کے بیٹے کی گرفتاری پر ہنگامے‘ 29 ہلاک
دیکھ لیں زمانہ کتنا بدل گیا ہے۔ لوگ کہاں سے کہاں پہنچ گئے ہیں۔ اب صرف سیاسی اور سماجی رہنماﺅں کیلئے ہی نہیں‘ سمگلروںکی گرفتاری پر بھی ہنگامے ہوتے ہیں۔ بے شک یہ عوام نہیں انہی جرائم پیشہ افراد کے پالے ہوئے غنڈے ہوتے ہیں جو اس طرح منظم دہشت گردانہ قسم کی کارروائیاں کرتے ہیں۔ اس واقعے سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ مافیا کتنا طاقتور ہو چکا ہے۔ یہ تو کسی انگلش یا ہندی فلم کی کہانی محسوس ہوتی ہے۔ میکسیکو کا بدنام زمانہ منشیات سمگلر جیل میں بند ہے مگر اس کے کارندے پورے شہر میں پنجے گاڑے بیٹھے ہیں۔ اس کا بیٹا جو اپنے باپ کے بعد منشیات کی سمگلنگ کا سارا کام سنبھالے ہوئے ہے اسے سکیورٹی فورسز نے بڑی تگ و دو کے بعد گرفتار کیا۔
جس کے بعد شہر میں جو کچھ ہوا سب کے سامنے ہے۔ دنیا بھر کا میڈیا یہ توڑ پھوڑ‘ جلاﺅ گھیراﺅ دکھا رہے۔ 10 فوجی اور 19 جرائم پیشہ افراد مارے جا چکے ہیں۔ اور تو اور ہوائی اڈے پر حملہ کرکے 3 طیاروں کو نقصان پہنچایا گیا اور شہر میں درجنوں گاڑیاں جلائی گئیں۔ یوں ایک سمگلر کی وجہ سے پورا شہر جوالامکھی بن گیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا بھر میں جرائم پیشہ مافیا کس قدر طاقتور ہو چکا ہے۔ ان کو نکیل ڈالنا کس قدر مشکل ہے۔ اس تناظر میں اگر ہم اپنی طرف نظر ڈالیں تو ہمیں معلوم ہو گا کہ ہمارے تو ہر شعبہ زندگی پر انہی مافیاز کا راج ہے۔ شاید اسی خوف سے ان پر کوئی ہاتھ نہیں ڈالتا اور یہ ہمارے ہاں راج کرتے پھر رہے ہیں۔
٭٭........٭٭........٭٭