کراچی(این این آئی)دو دریا کے قریب سمندر میں ڈوب کر لاپتا ہونے والی وٹرنری اسپتال کی ملازمہ کی لاش سمندرسے نکال لی گئی، لڑکی نے خودکشی نہیں کی بلکہ اسے زیادتی کے بعد قتل کیے جانے کا انکشاف ہوا ہے، اسپتال مالک نے گرفتاری کے بعد اعتراف جرم کرلیا۔تفصیلات کے مطابق دو روز قبل ڈیفنس کے وٹرنری اسپتال میں کام کرنے والی لڑکی کے سی ویو پر سمندر میں ڈوبنے کی اطلاع ملی تھی جسے ابتدا میں خودکشی کہا گیا تاہم لڑکی کے اہل خانہ نے واقعے کو خودکشی نہیں بلکہ قتل قرار دیا۔جمعرات کی شب پولیس نے لڑکی کے اغوا کا مقدمہ جانوروں کے اسپتال کے مالک اور اسٹاف نرس کے خلاف درج کیا، بعدازاں لڑکی کے اغوا میں ملوث اسپتال کے مالک ڈاکٹر اور اسٹاف نرس کو گرفتار کرلیا گیا۔پولیس حکام کے مطابق دوران تفتیشی ایسے شواہد ملے ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ لڑکی کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا، پوسٹ مارٹم رپورٹ آنے کے بعد ہی وجہ موت کا تعین اور زیادتی کا نشانہ بنائے جانے کے حوالے حتمی طور پر بتایا جا سکے گا۔لڑکی کی شناخت ساحل سمندر سے ملنے والی اس کے بیگ میں موجود قومی شناختی کارڈ کی مدد سے 23 سالہ سارہ ملک دختر ابرار احمد کے نام سے کی گئی۔ جاں بحق ہونے والی لڑکی محمود آباد اعظم بستی کی رہائشی اور ڈیفنس فیز 6 نشاط کمرشل میں واقع جانوروں کے اسپتال میں کام کرتی تھی۔لڑکی کے اہل خانہ نے بتایا تھا کہ سارہ ملک جمعہ کی دوپہر گھر سے اسپتال جانے کا کہہ کرنکلی تھی لیکن واپس نہیں لوٹی تھی، ساحل پولیس نے ہفتے کی رات نوجوان لڑکی سارہ ملک کے اغوا کا مقدمہ الزام نمبر 23/9 بجرم دفعہ 34/365 کے تحت والد ابرار احمد کی مدعیت میں درج کیا۔جاں بحق ہونے والے لڑکی کے چچا نے جناح اسپتال کے باہر میڈیا کے نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ ان کی بھتیجی گزشتہ 5 سال سے جانوروں کے اسپتال ملازمت کررہی تھی، حادثہ ڈیوٹی کے دوران ہی پیش آیا ہمیں شک ہے کہ اسپتال میں بھتیجی کے ساتھ ایسی کوئی بات ہوئی ہے جس پر مجبورا اس نے یہ اقدام ٹھایا۔انھوں نے بتایا کہ ہمارے کچھ بچے اسپتال گئے تھے اور انھوں نے ڈیلیٹ ہونے سے پہلے کی سی سی ٹی وی فوٹیج بھی دیکھی ہے جس میں بھتیجی کو پریشانی کے حالت میں اسپتال سے نکلتے ہوئے دیکھا ہے اوربھتیجی رو رہی تھی بعد میں جب پولیس اسپتال پہنچی تواسپتال انتظامیہ کی جانب سے سارا ڈیٹا ڈیلیٹ کردیا۔ایس ایس پی سائوتھ اسد رضا اور ایس پی انویسٹی گیشن سائوتھ زبیدہ پروین نے بتایا کہ پولیس نے لڑکی کے اغوا کے مقدمے میں نامزد جانوروں کے اسپتال کے مالک ڈاکٹر شان سلیم اوراسٹاف نرس بسمہ کو گرفتار کرلیا گیا ہے اور پولیس کو دوران تفتیشی ایسے شواہد ملے ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ لڑکی جس جانوروں کے اسپتال میں کام کرتی تھی اس ہی اسپتال میں اسے جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا ہے اور اسی وجہ سے لڑکی نے دلبرداشتہ ہونے کے بعد انتہائی قدم اٹھایا اور سمندر میں چھلانگ لگا کرخودکشی کرلی۔انھوں نے بتایا کہ پولیس نے جب اسپتال پر چھاپہ مارا تواسپتال میں نصب سی سی ٹی وی کیمروں کی ریکارڈنگ ڈیلیٹ کردی گئی تھی جبکہ پولیس کو اسپتال سے شواہد ضائع کرنے کے شواہد ملے ہیں، انھوں نے بتایا کہ مغویہ لڑکی کی لاش اتوارکی صبح سی ویو دو دریا کے قریب سمندر سے مل گئی ہے۔دوسری جانب ساحل تھانے کے ایس آئی او اصغر بروہی نے بتایا کہ واقعہ تحقیقات کے دوران خودکشی نہیں بلکہ قتل نکلا ہے، مقدمہ میں نامزد اور گرفتار ڈاکٹر شان سلیم نے دوران تفتیش لڑکی کو زیادتی کے بعد قتل کا اعتراف کیا ہے۔پولیس ذرائع کے مطابق لڑکی کے اغوا کے الزام میں گرفتار جانوروں کے اسپتال کے مالک ڈاکٹر شان سلیم کا ابتدائی بیان لے لیا گیا۔ ملزم شان سلیم نے پولیس کو بتایا ہے کہ سارہ ملک دوسال سے اسپتال میں کام کرتی تھی، سارہ ملک سے دوسال سے تعلق تھا اور سارہ سے جنسی تعلق بھی تھا۔ملزم نے بتایا کہ سارہ ملک سے کچھ روز سے جھگڑا چل رہا تھا، اسپتال میں کام کرنے والی بسمہ سے میرے تعلق کا سارہ کو علم ہوگیا تھا، سارہ ملک جمعہ کے روز اسپتال آئی اور چلی گئی، اسپتال کی سی سی ٹی وی فوٹیج عملے کی مدد سے ختم کروائی۔اطلاعات ہیں کہ سارہ ملک نے اپنی موت سے قبل اپنی والدہ کو ٹیلیفون کرکے آگاہ کردیا تھا، سارہ ملک نے اپنی والدہ کو بتایا تھا کہ ڈاکٹر شان سلیم نے اسے زیادتی کا نشانہ بنایا ہے، شام کے وقت شان سلیم نے سارہ کی والدہ کو فون کرکے بتایا کہ سارہ لاپتا ہے۔