ملتان: سردی کی شدید لہر، ڈینگی مریضوں کی تعداد صفر ہوگئی

شہرِملتان  میں سردی کی شدید لہر آتے ہی ڈینگی مریضوں کی تعداد صفر ہوگئی ہے۔

 ملتان میں واقع نشتر اسپتال کے ڈینگی شبہ میں اب کوئی ڈینگی کا مریض  زیرِعلاج نہیں ہے علاوہ ازیں گزشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران بھی کوئی نیا مریض رپورٹ نہیں ہوا ہے۔

 واضح رہے کہ ملتان شہر میں اس سال اب تک ڈینگی کے باعث 14 افراد جاں بحق ہوچکے ہیں۔ماہرین ِصحت کا کہنا ہے کہ  ڈینگی مچھروں سے پھیلنے والی  بیماری ہےہر سال  ہزاروں  افراد  کو متاثر کرنے والا مہلک ڈینگی بخار متعلقہ حکام کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج بنا ہوا ہے۔ ماہرین صحت نے ’غیر ذمہ دارانہ‘ رویے اور ’تیز رفتار شہر کاری‘ کو اس کے پھیلاؤ کی بنیادی وجوہ قرار دیا ہے۔ہمارے ملک میں گزشتہ دو دہائیوں سے برقرار ڈینگی جسے عام طور پر ’بریک بون فیور‘ کہا جاتا ہے. ہر مون سون میں ملک بھر کی آبادی کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے کیونکہ اس وقت تک اس بیماری سے ’تحفظ‘ کے طور پر کوئی خاص دوا دریافت نہیں ہوئی ہے۔ماہرین کا خیال ہے کہ تیزی سے شہر کاری اور گھروں کے اندر اور باہر کھڑا پانی ڈینگی مچھر کی افزائش کے لیے جگہ فراہم کرتا ہے .جس سے شہریوں کی قوت مدافعت کمزور ہوتی ہے اور وہ اس بیماری سے متاثر ہوتے ہیں۔شہریوں کا غیر ذمہ دارانہ رویہ، مخصوص علاج کی عدم دستیابی اور  گنجائش سے زیادہ بوجھ سہارنے والی  طبی سہولیات صورتحال کو مزید گمبھیر بناتی ہیں .جس کے نتیجے میں ہر سال سیکڑوں لوگ موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں بیماریوں کے پھیلاؤ کی دیگر بڑی وجوہات میں صفائی کا ناقص انتظام، آبادی میں افراط زر، طبی اور دواسازی کی ناکافی سہولیات، ناخواندگی کی بلند شرح اور حفاظتی ٹیکہ جات کے حوالے سے کم معلومات ہیں۔ڈاکٹر ڈاہا نے کہا کہ ڈینگی ہماری معیشت اور سماجی حیثیت کے ساتھ ساتھ صحت عامہ پر بھی اس کے سنگین اثرات مرتب کرتا ہے۔ انہوں نے مزید  کہا کہ احتیاطی تدابیر کے ذریعے اس کے نقصان کو بڑی حد تک کم کیا جا سکتا ہے۔انہوں نے مچھر اور ڈینگی وائرس کی مختلف خصوصیات کی تحقیقات کے لیے متنوع مطالعات کا مشورہ دیا جو علاج کے طریقہ کار کو بہتر بنانے کے لیے نئی موثر تکنیکوں کو تلاش کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔مزید یہ کہ سال 2019 ء ملکی تاریخ کا بدترین سال رہا جب نومبر کے اوائل تک 44 ہزار سے زائد کیسز رپورٹ ہوئے۔ تاہم صحت کی دیکھ بھال کرنے والے بہت سے پیشہ ور افراد کا خیال ہے کہ یہ تعداد بہت زیادہ ہو سکتی ہے کیونکہ دیہی علاقوں اور کچی آبادیوں میں زیادہ تر کیسز شاذ و نادر ہی رپورٹ کیے جاتے ہیں۔ڈاکٹر وسیم خواجہ، سابق ڈائریکٹر، پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (PIMS) نے کہا، ” بیماری کے جراثیم منتقل  کرنے والے اجسام پر کنٹرول، بیماریوں کا انتظام اور کمیونٹی کے بارے میں آگاہی کے نئے پروگرام  جیسے شعبوں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔”

ای پیپر دی نیشن