عکسِ خیال …پروفیسر محمد حفیظ
mh_mughal13@hotmail.com
نظارے پہ یہ جنبشِ مڑگاں بھی بار ہے
نرگس کی آنکھ سے تجھے دیکھا کرے کوئی
عرصہ گزر گیا میرے سامنے رشد و ہدایت سے بھر پور کتاب بعنوان " بیس بڑے مسلمان" گزری تھی جس میں وہ معتبر اکابرین مذکور ہیں جن کو اللہ جلِ شان نے وہ طاقت عطا فرمائی تھی جنہوں نے دنیاکی مقدس ترین غارِ حرا میں روشن ہونے والی علم و عرفان سے بھر پور شمعِ اسلام کو اپنی زندگی میں فروزاں رکھا۔ کتاب کی ایک یہ خوبی بھی ہے کہ اس میں تحریکاتِ آزادی کا جب بھی ذکر ہوا اس میں بابائے اردو مولانا ابو الکلام آزاد پورے بانکپن کے ساتھ جلو گر نظر آتے ہیں۔ اہلِ علم جانتے ہیں ہیں کہ کسی بھی مضمون کا خلاصہ اس کا روح و رواں ہوتا ہے جس کو انگریزی میں Synopsis کہا جاتا ہے اور تشگانِ علم او ادب اسی کے متلاشی رہتے ہیں۔ ہم نے آج اپنے محسن نہایت شفیق و مہربان محترم قاضی عبدالعزیز چشتی کی نیم رخ لیکن روح پرور تصویر دیکھی تو آنکھیں حیرت و استحجاب کا منظر پیش کرنے لگیں۔ اس میں نہ ہی لگی لپٹی ہے اور نہ کسی مبالغے سے کام لیا گیا بلکہ عصر حاضر کا یہ وہ سچ ہے جس کا یہاں (لوٹن، انگلینڈ) کا ہر باشندہ گواہی دیتا ہے۔ قاضی صاحب آج جس در پر جھکتے نظر آئے یہ وہ در ہے جس کے مکیں کی امت کی خدمت گزاری قاضی صاحب کا نصب العین ہے۔ انہوں اپنی زندگی یوں گزاری ہے گویا دنیا میں ان کی آمد کا مقصد واحد اللہ کی مخلوق اور خصوصا اللہ کے پیارے حبیب ؐ کی امت کی خدمت اور اصلاح ہے۔
یوں تو قاضی صاحب کی زندگی مجھ ایسے خاکیوں کے لیے نہ صرف باعثِ تقلید و تحسین ہے بلکہ ہم سب کے لیے مثلِ راہ ہے جو ہماری نجات کا سبب بن سکتی ہے۔ ان کی زندگی کی کتاب کا کونسا ایسا صفحہ ہے جس کو پلٹنے سے ہمیں ایک نیا سبق نہیں ملتا۔ کونسا ایسا باب ہے جو پہلے سے زیادہ دلچسپ اور ایثار و قرباں کا مدرس نہ ہو۔ قربانیوں پر منحصر کونسا ایسا واقعہ ہے جو ہماری آنکھیں خیرہ کرنے کے لیے ناکافی ہے چناچہ اگر میں صدی کے پچھلے چند سالوں میں رونما ہونے والی بد نامِ زمانہ کرونا روگ کا ذکر کرنے لگ جاوں تو اسی سے منسلک ان کی خدمات پر مبنی ایثار علی النفس باب پر ہی شاید ایک کتاب بھی کم پڑ جائے۔ یہ ایک ایسا وقت تھا جب انسان اپنے پیاروں کو لحد میں اتارنے سے بھی گریزاں تھے۔ جب لوگ اپنے پیاروں کی میت کو ہاتھ لگانا بھی موت سمجھتے تھے اور جب لوگوں کو ہدایت تھی کہ دو میٹر فاصلے کا خیال رکھا جائے لیکن تب بھی جناب قاضی صاحب نے اپنی زندگی کی ادھار سانسوں کی قربانی دینے سے بھی گریز نہ کیا اور آگے بڑھ کر سوسائٹی میں قربانی کی ایک ایسی مثال قائم کی جس کو ہر انسان عزت و احتشام سے دیکھتا ہے۔ ان کی ان قربانیوں کی بنا پر میں نے لوگوں سے یہ کہتے بھی سنا ہے کہ اوپر حضرت عزرائیل مصروف ہیں اور نیچے محترم قاضی اپنی آخرت سنوارنے میں لیل و نہار کوشاں ہیں۔ واہ مولا تو جس سے جو کام لینا چاہے لے کے رہتا ہے۔ یہ ایک ایسا کام ہے جس کی اہمیت کا اندازہ ان دو باتوں سے لگایا جا سکتا ہے جب لوگ بڑی مقدار میں کرونا کے روگ سے راہی عدم ہونے لگیتو حکومتِ برطانیہ نے اعلان کر دیا کہ وطنِ عزیز میں جگہ کمیاب ہونے کی بنا پر مسلمانوں کو بھی دوسرے مذاہب کے انسانوں کی طرح جلایا جائے گا جس پر قاضی نے اپنے تیں دیگر اکابرین کے ساتھ مل کر وہ پر مغز لابنگ کی کہ حکومتِ برطانیہ کو چارو نا چار اپنا یہ فیصلہ واپس لینا پڑا۔ میں نے کہا ناں کہ ان کی ساری زندگی کی طرح برطانیہ کے چالیس سال ان کی خدمت کا وہ منہ بولتا ثبوت ہیں اور بالخصوص روگِ کرونا جس کی پاداش میں تاجِ برطانیہ نے ان کی خدمات کو سراہتے ہوئے ان کو ایم بی ای(ممبر آف برٹش ایمپائر) جیسے عالی مرتبت اعزاز سے نواز کر ہم اہلیانِ لوٹن کو فخر و مباہات کا ایک رفیع المنزلت اور تاریخانہ نوع کا موقع عبادت کیا۔ صدیاں گزر جائیں گی لیکن جہاں بالعموم قاضی صاحب کی دیگر خدمات یاد رہ جائیں گی وہاں بالخصوص ان کی کرونا کے وقت قربانی کبھی نہیں بھلائے جائے گی۔
قاضی صاحب نے اپنیاسی دورہِ سعویہ سے مجھے چند ایک ریکارڈنگ پیغامات بھی بھیجے ہیں جن میں نہ صرف میرے لیے بلکہ تمام اہلِ اسلام کے لیے اس انداز میں دعاوں کے ترانے جاری ہیں جن سے اندازہ لگانا قطعی مشکل نہیں کہ وہ کسی مسیحا سے کم نہیں یعنی یہ ان کی فرائضِ منصبی میں شامل ہے جبکہ میں سمجھتا ہوں ایسی دعائیں فقط ان اصحاب کے دہن مبارک سے نکلتی ہیں جن کے اذہان و قلوب میں اللہ کی مخلوق کا درد اور اس کے حبیبؐ کی امت کی بخشش کا خیال مخفی ہو۔ دعا ہے وہ قاضی صاحب کو بخریت ہمارے درمیان واپس لائی اور ہم ان کی اسلامی تعلیمات سے اپنے اذہان و قلوب کو اپنے انداز میں منور کر کے فخر محسوس کر سکیں۔