ڈاکٹر سبیل اکرام
سال 2023ء بیت گیا اور نیا سال شروع ہوگیا۔ ضروری ہے کہ ہم سال 2023ء کا جائزہ لیں اسلئے کہ باشعور اقوام ماضی کا جائزہ لیتیں اور اس کی روشنی میں حال اور مستقبل کے اہداف کا تعین کرتی ہیں۔ حکیم الامت شاعر مشرق علامہ محمد اقبال نے ماضی کو یاداشت سے تشبیہ دی ہے وہ کہتے ہیں جو لوگ ماضی کو بھول جائیں وہ گویا اپنی یاداشت کھو بیٹھے ہیں۔ ہمارا شمار بھی انھی لوگوں میں ہوتا ہے۔ ہم نے نہ کبھی ماضی سے سبق سیکھا ہے، نہ حال کی فکر ہے اور نہ مستقبل کی منصوبہ بندی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ سال 2023ء پاکستان کے لیے معاشی اعتبار سے مشکل ترین سال تھا۔ سال 2023ء میں پاکستان پہلی بار ڈیفالٹ کے دہانے پر جا پہنچا۔ ڈیفالٹ سے واپسی کی قیمت شرح مبادلہ میں بھاری کمی اور شدید مہنگائی کی صورت میں عوام کو ادا کرنا پڑی ہے۔ اگرچہ پی ایم ڈی کی حکومت کا دعویٰ تھا کہ ہم نے پاکستان کو ڈیفالٹ ہونے سے بچالیا ہے لیکن جہاں تک عوام کا تعلق ہے ان کا ڈیفالٹ ہوچکا ہے۔ ملک عوام کے ساتھ بنتے ہیں لوگ خوشحال ہوں تو ملک ترقی کرتا ہے اور اگر عوام بدحال ہوں، پسماندہ ہوں، غربت، مہنگائی اور ظلم کی چکی میں پس رہے ہوں تو ملک ڈیفالٹ کر جاتے ہیں۔ پی ڈی ایم کی حکومت اس بات کا کریڈٹ تو لیتی رہی کہ ہم نے ملک کو ڈیفالٹ ہونے سے بچا لیا ہے۔ ڈیفالٹ سے بچانے کا مطلب یہ کہ ملک معاشی طور پر مستحکم ہو، مہنگائی کم ہو اور عام آدمی کو ریلیف ملے۔ یہاں صورت حال یہ رہی کہ سال 2023ء میں عوام کو کچھ بھی ریلیف نہیں ملا اور نہ ہی منگائی کم ہوئی ہے بلکہ مہنگائی مسلسل بڑھ رہی ہے۔ پالیسیوں کے حوالے سے نگران حکومت بھی پی ڈی ایم کا ہی تسلسل ہے۔ انوارالحق کاکڑ جب نگران وزیر اعظم بنے تو انھوں نے کہا تھا، ’’ہم پی ڈی ایم حکومت کی پالیسیاں جاری رکھیں گے‘‘۔ انوارالحق کاکڑ نے جو کہا واقعی دل وجان سے اس پر عمل کررہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دونوں ہاتھوں سے ملک کو لوٹا جارہا ہے اور اب کوشش ہے کہ لوگوں کے جسموں پر جو کپڑے رہ گئے ہیں وہ بھی اتار لیے جائیں۔ سال 2023ء میں نہ صرف یہ کہ مہنگائی نے تمام سابقہ ریکارڈ توڑ دیے بلکہ نئے ریکارڈ قائم کیے ہیں۔ مہنگائی نے عوام کو سنبھلنے اور سکھ کا سانس نہیں لینے دیا۔ مہنگائی نے 37 فیصد کی انتہائی بلند شرح کو عبور کیا۔ اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں 48 فیصد اضافہ ہوا جو کہ ایک ریکارڈ ہے۔ کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتوں میں 48 فیصد اضافہ کا ریکارڈ بھی سال 2023ء میں قائم ہوا۔ پٹرول کی قیمت بھی ریکارڈ سطح تک پہنچ گئیں جبکہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر بھی 307 روپے کی سطح پر آگئی۔ روپے کی قدر میں کمی کے باوجود عوامی سطح پر اس کے اثرات منتقل نہ ہوسکے۔ اسی طرح سال 2023ء کے دوران بجلی اور گیس کی قیمت میں بے تحاشا اضافے نے مہنگائی کے شکار عوام کی مشکلات میں مزید اضافہ کردیا۔
قیمتوں میں یہ سارے اضافے اپنی جگہ لیکن جو دیہاڑی دار اور تنخواہ طبقہ ہے جو کہ پاکستان کا اکثریتی طبقہ ہے۔ یہ طبقہ غربت کی چکی میں بری طرح پس رہا ہے۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ سال 2023ء میں پاکستان میں غربت بڑھی ہے اور خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی تعداد میں بے تحاشا اضافہ ہوا ہے۔
سال 2024ء سیاسی اعتبار سے بھی اپنے دامن میں بہت سے بے یقینی کے سائے لیے ہوئے آیا ہے۔ یہ کہا جائے تو بے جانہ ہوگا کہ بے یقینی اور بے چینی کے گھمبیر بادل ہیں جو چاروں طرف چھائے ہوئے ہیں۔ فی الحال تو عوام کے لیے بظاہر خوشی اور اطمینان کی کوئی خبر نہیں ہے۔ سب سے بڑی بے یقینی الیکشن کی صورت میں سامنے ہے۔ حالات سے یوں نظر آرہا ہے کہ 8 فروری کے الیکشن پاکستان کی تاریخ میں انتہائی اہمیت کے حامل ثابت ہوں گے تاہم اس کے لیے ضروری ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں کو الیکشن میں حصہ لینے کے لیے یکساں مواقع دیے جائیں جبکہ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ ایک جماعت کو دیوار کے ساتھ لگایا جارہا ہے اس سے الیکشن کی ساکھ متاثر ہوگی اور اس کی شفافیت پر سوالات اٹھیں گے۔ الیکشن سے قبل ہی بے یقینی اور دھاندلی کا تصور قوی ہوگیا توسوال یہ ہے کہ الیکشن کے نتائج کون مانے گا؟ جب الیکشن کے نتائج ہی نہ مانے گئے تو سیاسی استحکام کیوں کر ممکن ہوگا؟
سیاست اور معاشرت ایک دوسرے کے ساتھ لازم و ملزوم ہیں۔ ملک میں سیاسی استحکام ہوگا تو معیشت مضبوط ہوگی جبکہ پاکستان کی معاشی صورت حال پر گذشتہ سال عالمی بینک کے کنٹری ڈائریکٹر نے ان الفاظ میں تبصرہ کیا: پاکستان کا معاشی ماڈل ناکارہ ہو چکا ہے، پاکستان کو اپنی معیشت کی مکمل اوور ہالنگ کی ضرورت ہے۔ ان کے بقول پاکستان میں معاشی ترقی کے فوائد اشرافیہ تک محدود ہیں۔ پاکستان خطے کے ساتھی ملکوں سے پیچھے رہ گیا ہے۔ یہ سوچ پروان چڑھ رہی ہے کہ پالیسی بدلنا ضروری ہے لیکن بظاہر پالیسی بدلنے کی سوچ پر اشرافیہ میں اتفاق دکھائی نہیں دیتا۔ پاکستان ماحولیاتی تبدیلیوں کی زد میں ہے۔ زرعی اور انرجی شعبوں کی خرابیاں دور کرنے کی ضرورت ہے۔عالمی بینک کے کنٹری ڈائریکٹر کے بقول تجربہ یہ بتاتا ہے کہ ماضی میں بظاہر وعدے وعید کے باوجود ریفارمز کو روکا جاتا رہا ہے۔ پاکستان میں کاروباری ماحول خصوصاََ چھوٹے اور درمیانے کاروبار کے ماحول میں بہتری کی اشد ضرورت ہے۔ پاکستان میں نظام، قرضوں کی لاگت اور ریاست کے آمدن کے ذرائع پائیدار نہیں ہیں۔ آبادی کی ایک وسیع تعداد کو آج بھی پینے کے لیے صاف پانی دستیاب نہیں، بنیادی صحت، کم از کم خوراک اور تعلیم کی مناسب سہولیات دور دراز علاقوں حتیٰ کہ بڑے شہروں میں بھی معیار سے کہیں کم ہیں، جنوبی ایشیا میں نوزائیدہ بچوں کی اموات کی سب سے زیادہ شرح پاکستان میں ہے‘‘۔
یہ ہے عالمی بینک کے کنٹری ڈائریکٹر کا ہماری معاشی صورت حال کے بارے میں تبصرہ اور تجزیہ جو کہ بالکل مبنی بر حقیقت ہے۔ آج اگر عالمی کا بینک کا کنٹری ڈائریکٹر ہمارے بارے میں یہ کچھ کہہ رہا ہے تو ظاہر بات ہے اس کے ذمہ دار ہمارے سیاستدان اور حکمران ہیں۔
سال 2023ء میں دہشت گردی کا بھی زور رہا۔ خاص کر صوبہ پی کے خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں دہشت گردی کی سنگین وارداتیں ہوئی ہیں جن میں سکیورٹی اداروں کے اہلکاروں کے ساتھ ساتھ سویلین کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ دہشت گردی کی وارداتوں میں مالی نقصان کے علاوہ بڑی تعداد میں جانی نقصان بھی ہوا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم سال 2023ء کی غلطیوں کی اصلاح کریں۔ اس وقت میدان سیاست میں تناؤ کی شدیدکیفیت پائی جاتی ہے، تحمل، برداشت اور روادری کا فقدان ہے۔ سیاستدان ایک دوسرے کے مقابلے میں اس طرح صف آرا ہیں جیسے دشمن کی فوجیں میدان جنگ میں ایک دوسرے کے مقابل صف آراء ہوتی ہیں۔ ایک اور بڑی خرابی جس کا شکار پاکستان اپنے قیام سے ہی چلا آرہا ہے وہ ہے اداروں کا اپنی آئینی حدود سے تجاوز کرنا۔ یہ ایک ایسا رویہ ہے جس وجہ سے ہمارے ملک کو سیاسی اور معاشی طور پر شدید نقصان پہنچا ہے۔ جب تک تمام ادارے اپنی ا?ئینی حدود میں نہیں رہیں گے سیاسی استحکام ممکن نہیں ہے، یعنی مقتدر ادارے ملک کی جغرافیائی سرحدوں کا دفاع کریں، عدلیہ اپنی حدود میں رہے آئین کے نام پر غیر آئینی اقدامات نہ کرے اور سیاستدان اسمبلی اور سینیٹ کی بالادستی کو یقینی بنائیں۔ 2024ء میںسیاستدان، مقتدر ادارے اور عدلیہ اپنی آئینی حدود میں رہنے کا عزم کرلیں تو ہمارا ملک معاشی بحران اور گرداب سے نکل کر استحکام کی راہ پر گامزن ہو جائے گا ان شاء اللہ۔