عنوان: سحر شعیل
میرے ساتھ اکثر ایسا ہوتا تھا کہ کسی بھی محفل یا دعوت پر میں دیئے گئے مقررہ وقت پر پہنچ جاتی تھی اور ہمیشہ ایسا ہوتا کہ پروگرام کا دور دور تک پتہ نہ ہوتا تھا۔بلکہ اکثر جگہوں پر تو شاید اس وقت انتظامیہ بھی اپنے کاموں میں لگی ہوئی ملتی تھی۔ایک محفل میں اپنی اس کا عادت کا ذکر چند ہم عصروں سے کیا تو ایک قہقہے کے ساتھ یہ جواب ملا کہ کسی بھی جگہ پر لیٹ جانا آج کل ایک ٹرینڈ بن چکا ہے۔
ہم کتنی آسانی سے خامیوں کو ٹرینڈ کا نام دے کر بری الذمہ ہو جاتے ہیں۔گویا جو ٹرینڈز کے مطابق نہیں چلتا وہ درست ہوتے ہوئے بھی دقیانوسی کہلائے گا۔انفرادی اور اجتماعی طور پر پائی جانے والی خامیوں میں یہ بھی قومی خطا کے طور پر سامنے آئی ہے کہ ہم وقت کی قدر نہیں کرتے۔ہر جگہ لیٹ ہونا ماڈرن ہونے کی نشانی سمجھا جاتا ہے۔ ہماری روزمرہ انفرادی زندگی کی بات کریں تو روزانہ کتنے ہی قیمتی منٹ ہم ایسے ہی بے مقصد ضائع کر دیتے ہیں۔اپنے دن رات کے اوقات کا حساب نہیں رکھتے ہیں۔گھریلو خواتین ہوں یا معمولات زندگی میں معاون لوگ وقت ضائع کرنے کو غلطی تصور ہی نہیں کرتے۔بقول منیر نیازی
وقت کس تیزی سے گزرا روزمرہ میں منیر
آج کل ہوتا گیا اور دن ہوا ہوتے گئے
جب ہم انفرادی طور پر کوئی عمل کرتے ہیں تو وہ ہمارا اجتماعی رویہ بن جاتا ہے۔وقت کی پابندی کے معاملے میں بھی ایسا ہی ہے۔ہم بحیثیت قوم بھی وقت کی قدر و قیمت سمجھنے سے بے بہرہ ہیں۔وقت کی اہمیت کو سمجھنا دو طرح سے معنی رکھتا ہے۔ایک تو ہر کام کو اس کے مقررہ وقت پر کرنا یعنی کہیں جانا ہے،کوئی محفل ہے یا ہماری ذاتی زندگی کا کوئی بھی معاملہ ہے ۔دوسرا وقت کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے یا وقت کی ضرورت کو سمجھتے ہوئے اس کے ساتھ چلنا ہے یا اس کے مطابق کام کرنا ہے۔وقت دونوں طرح سے بہت اہم ہے اور اتنا اہم ہے کہ اس کو متاعِ حیات کہیں تو غلط نہیں ہو گا۔وقت کی پابندی کامیاب زندگی کے لئے لازم ہے۔عام معمول کے کاموں کو مقررہ وقت پر کیا جائے تو عادات پختہ ہو جاتی ہیں اور اس کا نتیجہ کامیابی کی صورت میں ملتا ہے۔وقت کے لمحات ضائع ہو جائیں تو ان پر ایسے افسوس کیا جانا چاہیے جیسے قیمتی دولت کے چھن جانے پر کرتے ہیں۔وقت، ہماری زندگی کا ایک بہت اہم جزو ہے۔ ہر لمحہ، ہر سیکنڈ، ہر منٹ کی اہمیت کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے۔ وقت کی قدر کرنا ایک ایسی خوبی ہے جو اگر آپ کی ذات میں ہے تو آپ کبھی پچھتاتے نہیں ہیں۔
وقت کو ضائع کرنا ایک بڑی غفلت ہوتی ہے۔ زندگی میں مختلف مقامات اور مراحل آتے ہیں، اور ہر مرحلہ ایک نیا سبق سکھاتا ہے۔ وقت کا صحیح استعمال کرنے سے ہم ممکنہ خود کو بہتر بنانے کا موقع حاصل کرتے ہیں۔وقت کا ضائع ہونا، غفلت ہوتی ہے جو کسی کی زندگی کو مایوس کن بنا دیتی ہے۔اسی طرح قومی لحاظ سے بھی یہ نقصان دہ ہے۔دنیا کی بڑی ترقی یافتہ قوموں کی طرف دیکھیے تو معلوم ہو گا کہ وہ وقت کی قدر و قیمت سے بے بہرہ نہیں ہیں۔ ہرقوم کی تاریخ میں وقت نے ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔ جب ایک قوم نے وقت کی قدر کی ہے اور اسے صحیح طریقے سے استعمال کیا ہے تو وہ ترقی کی راہوں میں بہترین مثالیں پیدا کرتی ہے۔دوسری طرف جو قومیں وقت کی قیمت کو نہیں سمجھتیں وہ خسارے میں رہتی ہیں اور مغلوب ہو جاتی ہیں۔قوموں کے لئے تو وقت کی اہمیت اس لحاظ سے بھی زیادہ ہے کہ انھیں زمانے یعنی وقت کے مطابق چلنا پڑتا ہے ورنہ وہ زوال کا شکار ہو جاتی ہیں۔برصغیر کی مثال سے ہم میں کون واقف نہیں ہے ؟؟
سر سید احمد خان نے وقت کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے مسلمان قوم کے لئے تعلیم کو باعثِ نجات قرار دیا تھا۔دوسری طرف مسلم قوم کے زوال کے اسباب پر نظر ڈالیے تو معلوم ہو گا کہ غالب قوم نے وقت کی ضرورت کے مطابق اپنی افواج سے لے کر معیشت کو بدلا اور غالب قرار پائے۔تاریخ کی گواہیاں چیخ چیخ کر کہہ رہی ہیں کہ اٹھو !وقت کی قدر کرو،وقت کے بدلتے ہوئے تقاضوں کو سمجھو ،اسی میں فلاح کا راز مضمر ہے۔ابو المجاہد کا ایک خوب صورت شعر ہے کہ
تم چلو اس کے ساتھ یا نہ چلو
پاؤں رکتے نہیں زمانے کے
بحیثیت قوم اس وقت ہمیں جن چیلجز کا سامنا ہے ان میں ایک بڑی مہم وقت کی قدر کرنا ہے۔وقت کا ضیاع گویا ہماری قومی عادت بن چکی ہے۔حالانکہ ہمیں اس بات کو پیشِ نظر رکھنا چاہیے کہ مہلت زندگی بہت کم ہی اور اس اکلوتی زندگی میں بے شمار کام ہمارے ذمہ ہیں اگر ہم وقت کی رفتار سے قدم ملا کر نہیں چلیں گے تو زمانہ اپنے دستور کے مطابق ہمیں پاؤں تلے روند ڈالے گا۔وقت کو ضائع کرنا انسان کی فکری صلاحیتوں کو کمزور کرتا ہے اور علمی خسارے کا باعث بنتا ہے۔وقت انتہائی "قیمتی "ہے جس کا ہر پل نایاب ہے اتنا نایاب کہ پلٹ کر نہیں آئے گا۔ہمیں چاہیے کہ گوہرِ نایاب کی اس لڑی کا ایک بھی موتی ضائع نہ کریں۔ہمیں وقت کو اپنا غلام بنانا ہے اور اگر ہم ایسا نہ کر سکے تو وقت ہمیں غلام بنا کر ہم پر حکمرانی کرے گا۔