اسلام آباد(خصوصی رپورٹر) سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کے خلاف جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کی درخواست پرسماعت,سپریم کورٹ نے ممبر سپریم جوڈیشل کونسل جسٹس اعجاز الاحسن پر اعتراض کے معاملے پر فیصلہ محفوظ کرلیا ۔ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے ججز کے خلاف آج کل بھی منظم مہم سازی ہورہی ہے،ججز کا کوئی انفارمیشن یا میڈیا سیل نہیں ہوتا کہ خود پر لگے الزامات کا جواب دے سکیں،سپریم جوڈیشل کونسل میں ججز کے خلاف کئی مضحکہ خیز شکایات کی جاتی ہیں جن کو آئے روز خارج کیا جاتا یے، جج کی بیٹی کے بارے میں تنقید کی گئی اب کون بتائے کہ اس جج کی بیٹی ہی نہیں،جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی،جسٹس امین الدین خان نے کہا بینچ کی تشکیل پر اعتراض ہے تو بتادیں، آدھا کیس سن کر اعتراضات نہیں دیکھیں گے،گزشتہ سماعت پر قرار دیا تھا کہ تحریری اعتراضات آنے پر جائزہ لیں گے،کوئی اعتراض جمع نہیں کروایا گیا جسٹس جمال مندوخیل نے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا اگر آپ بینچ کی تشکیل کو درست سمجھتے ہیں تو کیس کی کارروائی آگے بڑھاتے ہیں،جسٹس مظاہر نقوی کے وکیل مخدوم علی خان نے بینچ کی تشکیل پر اعتراض واپس لے لیے۔وکیل نیکہا مفروضوں کی بنیاد پر جسٹس مظاہر نقوی کو سپریم جوڈیشل کونسل نے شوکاز نوٹس کیا،جسٹس جمال مندوخیل نیکہا یہ طے کرنا کس کا اختیار ہے کہ شوکاز نوٹس حقائق پر مبنی ہے یا مفروضوں پر؟وکیل نے جواب دیا یہ سپریم جوڈیشل کونسل نے طے کرنا ہے مگر میرے موکل کے خلاف شکایات بدنیتی پر مبنی ہیں،جسٹس امین الدین نے کہا سپریم کورٹ شکایت گزاروں کی بدنیتی کا تعین کیسے کرسکتی ہے؟وکیل نے جواب دیا اس کیس میں شکایت گزاروں کا جسٹس مظاہر کے خلاف ریفرنس بھیجنے کا کوئی قانونی حق نہیں بنتا، میرے موکل کے خلاف ایک شکایت گزار عدالت میں آئینی درخواست بھی لایا،جسٹس امین الدین خان نے کہا شکایت گزار کی درخواست سپریم جوڈیشل کونسل کی تشکیل پر ہے، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کیا آپ نے بھی سپریم جوڈیشل کونسل کی تشکیل پر اعتراض کیا؟یہ اپنی نوعیت کا پہلا کیس ہے تو اس میں فریق کس کو بنایا گیا ہے؟وکیل نے جواب دیا سپریم جوڈیشل کونسل میں ان کے ممبران پر اعتراض کیا تھا،کیس میں وفاق،صدر پاکستان اور بار سمیت دیگر کو فریق بنایا ہے،جسٹس جمال مندوخیل نے کہا دیکھیں یہ ہمارے لئے بہت مشکل صورتحال ہے، احتیاط سے چلنا ہوگا،ججز کے خلاف آج کل بھی منظم مہم سازی ہورہی ہے،ججز کا کوئی انفارمیشن یا میڈیا سیل نہیں ہوتا کہ خود پر لگے الزامات کا جواب دے سکیں،سپریم جوڈیشل کونسل میں ججز کے خلاف کئی مضحکہ خیز شکایات کی جاتی ہیں جن کو آئے روز خارج کیا جاتا یے، جج کی بیٹی کے بارے میں تنقید کی گئی اب کون بتائے کہ اس جج کی بیٹی ہی نہیں،جج کی بیٹی سے منسوب کرکے ایک بات بریکنگ نیوز کے طور پر پھیلائی گئی، جس کا دل چاہتا ہے اٹھ کر ججز کیخلاف شکایات لے آتا ہے،ججز کیخلاف تضحیک آمیز باتیں کی جارہی ہیں، کوئی پوچھنے والا نہیں، ججز تو جواب بھی نہیں دے سکتے،عدالت نے کہا کیا سپریم جوڈیشل کونسل میں مرکزی شکایت کنندگان کو فریق بنائے بغیر آئینی درخواست سنی جاسکتی ہے؟یہ سوال اپنی نوعیت کی پہلی مثال ہے، کیس کی سماعت آج منگل تک ملتوی کردی گئی۔