پتھر پر دوطرفہ لکیر

آٹھ فروری کے انتخابات کا سامنا کرنے اور انکے نتائج خوش دلی سے قبول کرنے کے معاملہ میں کہیں نہ کہیں کوئی تحفظات تو موجود ہیں اس لئے انتخابات کے انعقاد میں صرف 29 دن باقی بچنے کے باوجود سیاسی انتخابی میدان میں روایتی گہماگہمی والی فضا اب تک استوار نہیں ہو پائی۔ آج ہم اس پر ہی بات کرتے ہیں کہ کون کون کس کس بنیاد پر آٹھ فروری کے انتخابات سے گریز کا خواہش مند ہے۔ بے شک الیکشن کمیشن نے انتخابات کے تمام تر انتظامات مکمل کر لئے ہیں اور پیر کے روز چیف جسٹس سپریم کورٹ مسٹر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے تین رکنی بینچ کے روبرو لیول پلینگ فلیڈ کے حوالے سے الیکشن کمیشن کے خلاف پی ٹی آئی کی دائر کردہ توہین عدالت کی درخواست کی سماعت کے موقع پر بھی الیکشن کمیشن کے وکیل نے انتخابات میں حصہ لینے والی تمام سیاسی جماعتوں کیلئے انتخابی میدان میں اترنے کے یکساں مواقع فراہم کئے جانے کا یقین دلایا اور فاضل چیف جسٹس نے پی ٹی آئی کے وکلاء سردار لطیف کھوسہ اور بیرسٹر گوہر علی سے استفسار کیا کہ آیا انکی جانب سے لیول پلینگ فیلڈ نہ ملنے کی شکایت انتخابات ملتوی کرانے کیلئے تو نہیں کی جا رہی تو اس سارے قضیئے کے پس پردہ کچھ عوامل کافرما ضرور ہیں جو آٹھ فروری کے انتخابات سے گریز کی فضا بہرحال ہموار کر رہے ہیں۔ سینٹ میں ایک آزاد رکن دلاور خان کی جانب سے انتخابات کے التواء کیلئے ’’اچانک‘‘ قرارداد پیش کرنا اور ہائوس میں کورم نہ ہونے کے باوجود چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کی جانب سے رولز آف بزنس سے ہٹ کر یکایک اس قرارداد پر ووٹنگ کرانا اور پھر قرارداد منظور ہونے کا اعلان کرتے ہی سینیٹ کا اجلاس غیرمعینہ مدت کیلئے ملتوی کر دینا 8 فروری کے انتخابات سے گریز کی کسی پس پردہ حکمت عملی کو ہی اجاگر کر رہا تھا اور مجھے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہوئے قطعاً کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہو رہی کہ اس قرارداد کے ہائوس میں پیش ہونے کے بعد اسکے ممکنہ مضر اثرات کی پرواہ کئے بغیر اس پر کارروائی کیلئے کورم نہ ہونے کے باوجود اجلاس جاری رکھوانے‘ اسکی مخالفت نہ کرنے اور ووٹنگ کے وقت غیرجانبدار رہنے والے ارکان سینیٹ کی جماعتوں کو اس ’’واردات‘‘ کا پیشگی علم تھا۔ اسی لئے تو چیئرمین سینیٹ نے اچانک قرارداد پیش کرکے فوری منظور بھی کرالی اور ساتھ اس قرارداد کی کاپی انتخابات کے التواء کیلئے ضروری کارروائی کی خاطر الیکشن کمیشن اور دوسرے متعلقہ اداروں کو بھجوا بھی دی۔ تو جناب! اس ’’جھٹ پٹ‘‘ کے کچھ تو محرکات موجود ہیں جن میں بعض سیاسی جماعتوں کی نیمِ دروں‘ نیمِ بروں والی حکمت عملی بھی کارفرما ہے۔ 
اس حوالے سے سب سے زیادہ ملبہ سابق حکمران پی ٹی آئی پر ہی پڑتا نظر آرہا ہے جس نے عبوری نگران حکومت کی تشکیل سے بھی پہلے لیول پلینگ فیلڈ کا شور اٹھانا شروع کر دیا تھا اور اسکی قیادت کی جانب سے واضح عندیہ دیا جانے لگا تھا کہ انتخابی میدان میں ہم نہیں ہونگے تو پھر دوسروں کیلئے بھی انتخابی میدان میں اترنا ناممکن بنا دیں گے۔ پی ٹی آئی کے بانی قائد عمران خان تو اپنی گرفتاری سے قبل تزک و احتشام کے ساتھ منعقد کئے جانے والے ہر پبلک جلسے میں اس پاکستان پر جس میں پی ٹی آئی اقتدار میں نہ ہو‘ دشمن کے حملے‘ اسکی ایٹمی ٹیکنالوجی کو بم سے اڑانے‘ افواج پاکستان کے تقسیم ہونے اور پاکستان کی ترقی کا سفر رک جانے کی اعلانیہ بددعائیں دیا کرتے تھے چنانچہ انکی پارٹی آج بھی اسی فلسفہ پر کاربند نظر آتی ہے کہ ہم نہیں تو کوئی بھی نہیں۔ اس سے بادی النظر میں یہی نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ انتخابات سے گریز کی کسی حکمت عملی میں پی ٹی آئی کی درپردہ حمایت ضرور کارفرما ہے کیونکہ عمران خان نااہل ہونے کے باعث خود بطور امیدوار انتخابی میدان میں اترنے کی فی الحال پوزیشن میں نہیں ہیں۔ چنانچہ وہ نہیں تو پھر دوسرے بھی کیوں۔
یقیناً اس پس پردہ حکمت عملی کے تحت ہی پی ٹی آئی کے ایک وکیل نے آر اوز کے تقرر سے متعلق الیکشن کمیشن کی انتخابات کی جانب پیش رفت کو لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کیا اور اسی حکمت عملی کے تحت ہائیکورٹ کے سنگل بنچ نے الیکشن کمیشن کو سنے بغیر اسے آر اوز کا تقرر کرنے سے روک دیا جس کے باعث سارا انتخابی عمل ہی رک گیا۔ چنانچہ چیف جسٹس سپریم کورٹ کو اس معاملہ کا فوری اور سخت نوٹس لے کر لاہور ہائیکورٹ کے سنگل بنچ کا فیصلہ کالعدم کرنا پڑا اور ساتھ ہی یہ دوٹوک اعلان بھی کرنا پڑا کہ جمہوریت کو ڈی ریل کرنے کی کسی کو اجازت نہیں دی جائیگی۔ 
یہ تمام تر حقائق و واقعات 8 فروری کے انتخابات سے گریز کی کسی حکمت عملی پر پی ٹی آئی کے اطمینان کی ہی عکاسی کرتی ہے جس کے اطمینان کی جھلک اب سپریم کورٹ میں زیرسماعت اسکے لیول پلینگ فیلڈ والے کیس میں بھی نظر آرہی ہے۔ اگر پی ٹی آئی کے ارکان نے سینیٹ میں انتخابات کے التواء￿ کی قرارداد پر خاموشی اختیار کئے رکھی تو اس میں یقیناً انتخابات سے گریز والی حکمت عملی ہی کارفرما ہوگی۔ 
اب آتے ہیں مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کی اس معاملہ میں جھلکتی سوچ کی جانب۔ اگرچہ یہ دونوں جماعتیں شدومد کے ساتھ 8 فروری کے انتخابات کیلئے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے ٹھوس فیصلے اور مصمم ارادے کے ساتھ کھڑی نظر آتی ہیں جس کا ان پارٹیوں کی قیادتوں کی جانب سے گاہے بگاہے اظہار بھی کیا جاتا ہے مگر یہ خوف ان پارٹیوں کی قیادتوں کے دلوں میں گھر کر چکا ہے کہ پی ٹی آئی کی بھڑکائی گئی منافرت کی موجودہ فضا میں اس پارٹی کے ساتھ آٹھ فروری کو انتخابی میدان میں اترنا پڑا تو پی ٹی آئی کے ہاتھوں ان کا عملاً صفایا ہو جائیگا۔ چنانچہ انکے خیال میں انتخابات سے پہلے انکے اس خوف کا ازالہ ضروری ہے جو پی ٹی آئی کو انتخابی عمل سے باہر نکالنے کی صورت میں ہی ممکن ہے۔ یہی وہ تصور ہے جو مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کی جانب سے بھی آٹھ فروری کے انتخابات سے گریز کی کسی حکمت عملی کو تقویت پہنچاتا نظر آتا ہے۔ 
اس تناظر میں یہ جائزہ لینے میں بھی کیا مضائقہ ہے کہ اگر آٹھ فروری کے انتخابات سے گریز کی حکمت عملی میں مقتدر حلقوں المعروف اسٹیبلشمنٹ کا عمل دخل ہے تو اس کا پس منظر کیا ہو سکتا ہے۔ اس کیلئے ہمیں ذہن پر بوجھ ڈال کر زیادہ سوچ بچار کرنے کی بھی قطعاً ضرورت نہیں۔ ملکی ریاستی انتظامی اداروں کے ساتھ پی ٹی آئی اور اسکی قیادت کے کھلواڑ سے باآسانی نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ انتخابی میدان میں پی ٹی آئی کیلئے یہ ساری مشکلات کیوں پیدا ہوئی ہیں اور اسے انتخابی عمل سے نکالنے کی راہ ہموار کرنے کی کوشش کیوں کی جا رہی ہے۔ جس جماعت کی قیادت نے 9 مئی 2023ء￿ کو افواج پاکستان اور اسکے اداروں کی عمارات اور قومی ہیروز کے مجسموں اور پھر پاکستان کے تشخص کے خلاف اودھم مچانے کے بعد بھی اپنی سوچ تبدیل نہ کی ہو اور عمران خان صاحب جیل میں پڑے ہوئے بھی منہ پر ہاتھ پھیر کر یہ دھمکی دے رہے ہوں کہ مجھے جیل سے باہر آنے دو‘ سب پر دفعہ 6 لگائوں گا‘ سب کو لٹکائوں گا‘ تو جناب! آپ ایسے لہجے‘ ایسے طرز تخاطب‘ ایسی سیاست اور مستقبل کی ایسی منصوبہ بندی کے اعلانیہ اظہار کے ساتھ اپنے پیدا کردہ ان سارے مخالفین سے کس برتے پر یہ توقع کر سکتے ہیں کہ انتخابی سیاسی میدان میں آپ پر پھول برسا کر آپ کا ریڈکارپٹڈ استقبال کیا جائیگا۔ پھر آپ کو انتخابی میدان سے دور رکھنے کی ہی کوئی حکمت عملی طے ہوگی جو آٹھ فروری کے انتخابات کی تمام تر یقین دہانیوں کے باوجود کسی نہ کسی حوالے سے اور کسی نہ کسی سطح پر اپنی موجودگی کا احساس دلا رہی ہے۔ ہمارے محض آنکھیں بند کرکے چشم تصور سے دیکھنے سے تو حقیقت نہیں چھپائی جا سکتی۔ اور حقیقت یہی ہے کہ آٹھ فروری کے انتخابات کا انعقاد انتخابی سیاسی میدان میں پی ٹی آئی کے بانی قائد کی مکمل عدم موجودگی سے ہی یقینی ہوگا۔ اس کیلئے مولانا فضل الرحمان کے بالاصرار تقاضے‘ سینیٹ کی قرارداد اور گورنر خیبر پی کے کی جانب سے سینیٹ کی اس قرارداد کو روبہ عمل لانے کا تقاضا آپ انتخابات کے التواء کی کسی حکمت عملی کی ایک جھلک ہی سمجھ لیں۔ شاید اب نیک نگاہوں کو پردہ اٹھنے کے انتظار کی زحمت بھی نہ اٹھانی پڑے کیونکہ اس حکمت عملی پر ایسے یا ویسے‘ سبھی متفق نظر آتے ہیں چنانچہ پتھر پر لکیر بھی دوطرفہ ہی ہے۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...