تحریک التوائے انتخابات 

اچھے ڈرامہ نگار کی خوبی ہوتی ہے کہ وہ اینڈ تک تجسس برقرار رکھتا ہے اور دیکھنے والے کو آنکھ بھی جھپکنے نہیں دیتا کہ کوئی سین مس نہ ہو جائے۔ انتخابات کے حوالے سے بھی اسی قسم کا ڈرامہ چل رہا ہے۔ ایک لمبے عرصے سے الیکشن پراسس شروع ہے تاہم ابھی تک یہ واضح نہیں ہو رہا کہ آیا ابھی تک اس کا ٹریلر چل رہا ہے یا انتخابات کی پوری فلم کا آغاز ہو چکا ہے۔ انتخابات میں ایک ماہ کا قلیل عرصہ رہ گیا ہے لیکن تاحال انتخابات کا ماحول نہیں بن پا رہا سیاسی جماعتیں اور امیدوار بادل ناخواستہ ہلکی ہلکی سی دھونی دہکا رہے ہیں تاکہ کھیل میں موجود رہیں۔ اس فلم کے تخلیق کار کو داد دینا پڑتی ہے کہ وہ اب تک یہ سمجھ نہیں آنے دے رہا کہ آخر کار ہونے کیا جا رہا ہے۔ وہ فلم میں پورا تجسس برقرار رکھے ہوئے ہے، کسی کو سانس بھی نہیں لینے دے رہا کہ نہ جانے کس وقت کیا ہو جائے۔ تجسس اس قدر زیادہ ہے کہ ہر کوئی سمجھتا ہے، ابھی فیصلہ کن موڑ آنے والا ہے۔ ساتھ ہی کوئی نہ کوئی ایسی شرلی چھوڑ دی جاتی ہے کہ شکوک وشبہات عروج پکڑ لیتے ہیں۔ اور ساتھ ہی ساتھ اتنے زور سے تردید آجاتی ہے کہ لوگوں کو ایمان لانا پڑتا ہے۔ ایک طرف سپریم کورٹ نے انتخابات کے بارے میں تبصرہ نگاروں کی زبان بندی کر رکھی ہے دوسری جانب ایسی آوازیں اٹھ رہی ہیں کہ خواہ مخواہ ایمان ڈول جاتا ہے۔ سب سے بڑھ کر مولانا فضل الرحمن جیسے سنجیدہ اور جید سیاستدان جب انتخابات ملتوی کرنے کی بات کرتے ہیں تو لوگ اندازہ لگاتے ہیں کہ کہیں نہ کہیں اس بارے میں بات ضرور ہو رہی ہے۔ 
مولانا ایسے ہی بات نہیں کیا کرتے، ان کے ہر لفظ کے پیچھے ایک کہانی ہوتی ہے۔ تازہ ترین واردات سینٹ میں ڈالی گئی ہے جہاں ایک آزاد رکن کی جانب سے انتخابات ملتوی کرنے کی قرارداد لائی گئی اور معجزانہ طور پر یہ قرارداد منظور ہوگئی۔ بلاشبہ اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔ ہزاروں قراردادیں ایسی پاس ہو چکی ہیں جن پر عملدرآمد نہیں ہوا لیکن ہر قرارداد کا کوئی نہ کوئی مقصد ضرور ہوتا ہے۔ اسی طرح انتخابات ملتوی کرانے والی قرارداد بھی ایسے ہی پیش نہیں ہوئی اس کے بھی کچھ مقاصد ہیں۔ آپ اندازہ لگائیں کہ یہ قرارداد شیڈول کا حصہ ہی نہیں تھی اور پھر اس کو پیش کرنے اور پاس کروانے کا ایک موقع غنیمت پیدا کیا گیا۔
 عمومی طور جمعہ کو نماز جمعہ کے بعد سیشن نہیں ہوتا لیکن اس روز سیشن رکھا گیا اور قرارداد منظور کروانے کے بعد اجلاس غیرمعینہ مدت کے لیے ملتوی کر دیا گیا تاکہ اس پر بات نہ ہو سکے۔ جب اس قرارداد کے آفٹر شاکس آنے لگے تو سیاسی جماعتوں کے اراکین آئیں بائیں شائیں کرتے نظر آئے کہ ہمیں پتہ ہی نہیں چلا۔ نہ ہمیں کورم کی نشاندہی کا خیال آیا۔ بندہ پوچھے تم اتنے ہی چوزے تھے کہ ایوان بالا میں بیٹھ کر روٹی کو چوچی کہتے ہو۔ اگر تمہیں یہ پتہ نہیں کہ کس لفظ کے کیا معنی ہیں اور اس کے اثرات کیا مرتب ہو سکتے ہیں تو تمہیں ایوان بالا میں بیٹھنے کا کوئی حق نہیں۔ کل کو کوئی چکمہ دے کر آپ سے پاکستان کے خلاف قرارداد منظور کروا جائے گا اور آپ کہیں گے ہمیں پتہ ہی نہیں چلا۔ 
دراصل ایک عرصے سے سینٹ جادوئی طاقتوں کے اثر میں ہے۔ مجھے تو اسی دن اندازہ ہو گیا تھا جب تمام سیاسی جماعتوں نے اپنے نامور لوگوں کی موجودگی میں ایک غیرنمایاں شخص صادق سنجرانی کو چیرمین سینٹ بنا لیا تھا۔ میں نے اسی وقت کہا تھا اس بندے کے پاس کوئی بہت بڑے موکل ہیں کیونکہ سینٹ میں اس وقت کی حکومت کے پاس اکثریت نہیں تھی۔ معجزاتی طور پر صادق سنجرانی چیرمین بن گئے۔ پھر جب صادق سنجرانی کے پاس عددی اکثریت نہ ہونے کے باوجود اسکے خلاف عدم اعتماد ناکام ہوئی تو واضح ہو گیا کہ صادق سنجرانی سے بڑے بڑے کام لینا مقصود ہے۔ آپ اندازہ لگائیں کہ جس بندے کے پاس اپنے چار ووٹ نہیں وہ عرصہ سے چیرمین برقرار ہے اور ہر موقع پر وہ جس جماعت کے سینٹرز سے جو چاہتا ہے کروا لیتا ہے۔ جس شخص کے پاس اتنی جادوئی طاقت ہو وہ ایک قرارداد کیا بہت کچھ اور بھی کر سکتا ہے۔حسب ضرورت تحریک انصاف، پیپلزپارٹی، مسلم لیگ ن جے یو آئی آزاد ارکان جن کی حمایت سنجرانی صاحب کو مطلوب ہوتی ہے انھیں مل جاتی ہے۔ ابھی اس قرارداد کی حشر سامانیاں ختم نہیں ہوئی تھیں کہ ایک اور سیکرٹری الیکشن کمشن کے استعفے کی صورت میں بلاسٹ ہو گیا لوگ ان سارے معاملات کو ایک دوسرے سے جوڑ کر دیکھتے ہیں تو لامحالہ انکی سوچ لڑکھڑا جاتی ہے۔ الیکشن کمیشن کے ترجمان کی لاکھ وضاحتیں آئیں کہ سیکرٹری الیکشن کمیشن بیمار ہیں اور تاحال ان کا استعفی قبول نہیں کیا گیا اور ان کی غیر موجودگی سے کوئی فرق نہیں پڑتا دو ایڈیشنل سیکرٹری کام کر رہے ہیں۔ اگر فرق نہیں پڑتا تو وہ استعفی کی بجائے چھٹی لے کر بھی علاج کروا سکتے تھے۔ مستعفی ہونے کی ضرورت کیونکر پیش آئی۔ حالات واقعات بتا رہے ہیں کہ کہیں نہ کہیں متبادل معاملات زیر بحث ہیں اور کسی بھی وقت کچھ ہو سکتا ہے۔ لہذا بریکنگ نیوز کے لیے الرٹ رہیں۔

ای پیپر دی نیشن