ملکی تاریخ کے بدترین پاور بریک ڈائون کی ایک سال بعد تحقیقات مکمل ہو گئی۔تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ میں بریک ڈائون کی ذمہ داری 4 جونیئر افسران پر ڈال دی گئی۔ 2 ڈپٹی منیجر، ایک شفٹ انچارج اور ایک منیجر پاور کنٹرول کو بریک ڈاوئون کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے۔
23 جنوری 2023ء کے بریک ڈائون کے بعد بجلی کا ترسیلی نظام بحال ہونے میں 20 گھنٹے لگے تھے. اس دوران پورے ملک میں زندگی کے معمولات ٹھپ ہو کر رہ گئے تھے۔رپورٹ کی تیاری میں ایک سال لگ گیا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ تحقیقاتی کمیٹی کی طرف سے تمام تر جزئیات کا جائزہ لیا گیا ہوگا اور اس حوالے سے خصوصی طور پر سفارشات یا تجاویز دی گئی ہوں گی کہ آئندہ ایسے بریک ڈاؤن نہ ہوں۔اس دوران متعلقہ اداروں کی طرف سے کس قسم کی کارگردگی سامنے آتی رہی۔گزشتہ ہفتے گدو پاور پلانٹ میں خرابی پیدا ہو گئی تھی۔اس سے کئی علاقے بری طرح سے متاثر ہوئے۔ابھی تک خرابی پوری طرح سے دور نہیں ہو سکی۔ اس کے اثرات بدستور موجود ہیں۔سردیوں میں عموماً بجلی کی لوڈ شیڈنگ کم ہوتی ہے لیکن اس خرابی کی وجہ سے 12 بارہ گھنٹے لوڈ شیڈنگ بھی ہو رہی ہے۔گدو پاور پلانٹ میں خرابی کیسے پیدا ہوئی اور جلد کیوں دور نہ ہو سکی۔اس کی وجوہات جاننے کے لیے بھی کمیٹی قائم کر دی گئی ہے۔کیا اس کمیٹی کی رپورٹ بھی اگلے سال آئے گی؟
ایک سال پہلے قائم کی گئی کمیٹی کی رپورٹ میں3 ہزار ارب روپے مالیت کا بجلی کا ترسیلی نظام ایس او پیز کے بغیر چلنے کا انکشاف ہوا ہے۔ وفاقی کابینہ نے بدترین پاور بریک ڈاوئون کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کی ہدایت کی تھی۔کمیٹی کی طرف سے ذمہ داروں کا تعین کر دیا گیا ہے۔ان کے خلاف تادیبی کاروائی تو ہوگی، اس کے ساتھ ساتھ اپنے ترسیلی نظام کو بھی دیکھنا ہے۔ملبہ صرف چند لوگوں پر ہی نہیں ڈالا جا سکتا۔آج ملک میں بجلی اور گیس دونوں کا بحران ہے۔ایسے میں نگرانوں کو اپنی ذمہ داری ادا کرنی ہے۔منتخب حکومت ہو یا نگران حکومت ،ادارے اپنی جگہ موجود رہتے ہیں۔وہ اپنی ذمہ داری پوری کرتے ہوئے ایسے بحرانوں سے نمٹنے کی کوشش کریں۔