-i سینیٹ کے اجلاس میں معزز رکن اور معروف قانون دان جناب ایس ایم ظفر نے وفاقی بجٹ میں کالا باغ ڈیم کے لئے فنڈز مختص کرنے کی تجویز دی۔ اے این پی کے ارکان نے اس تجویز کی شدت سے مخالف کی اور برملا کہہ دیا کہ یہ پنجاب کا مسئلہ ہے یا پنجاب کے مفاد کا مسئلہ ہے‘ یہ منصوبہ ترک کر دیا گیا ہے۔
-ii پنجاب میں پی پی کے وزیر خزاجہ چوہدری تنویر اشرف نے اپنے پوسٹ بجٹ خطاب میں خم ٹھونک کر یہ اعلان کیا ہے کہ کالا باغ ڈیم کے منصوبے کو ترک کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ پنجاب کے بجٹ میں اس منصوبہ کیلئے علامتی فنڈز مختص کر دیے گئے ہیں۔
-iii صدر آصف علی زرداری نے پنجاب میں پانی کے جاری وسائل کو کم کر کے سندھ کو زیادہ پانی دئیے جانے کی ہدایت کی جس پر پنجاب اسمبلی میں شدید ردعمل ہوا تاہم پنجاب کو ٹھنڈا کرنے کے لئے یقین دہانیاں کرائی جا رہی ہیں۔ (یہ تو ابتدا ہے اگر خدانخواستہ کالاباغ ڈیم کو نظر انداز کیا گیا تو پانی کے حوالے سے بین الصوبائی وہ نفرت اور تنازعات جنم لیں گے کہ آپ تصور نہیں کر سکتے) ۔
-iv عالمی بینک نے بھاشا ڈیم کے لئے فنڈز فراہم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ (یہ معاملہ بوجوہ پہلے ہی مشکوک تھا)۔
-v پاکستان متحدہ کسان محاذ نے دس سال تک کی عمر کے ننھے منے بچوں کے ساتھ واہگہ کے مقام پر بھارتی آبی جارحیت کے خلاف مظاہرہ کرایا ہے۔
-vi اس دوران سب سے زیادہ خطرناک یہ خبریں شائع ہوئی ہیں کہ بھارتی واٹر ایجنسیاں کالا باغ ڈیم کی تعمیر رکوانے اور پاکستان کو بھوکا پیاسا مارنے کیلئے سندھ کے نام نہاد قوم پرستوں کی تنظیموں میں گزشتہ پندرہ سال کے اندر 10 ارب روپے تقسیم کر چکی ہیں۔ یہ خبریں کسی لمبے چوڑے تبصرے کی محتاج نہیں۔ بھارت کی بدمعاشی کی حد تک کھلی آبی جارحیت اور پاکستان کی طرف سے غیرت سے تہی دامنی کی حد تک مجرمانہ غفلت کے باعث پانی کے حوالے سے حالات انتہائی خطرناک موڑ تک پہنچ گئے ہیں۔ سارا ملک پانی کی کمی کے باعث ’’ڈی ہائیڈیرشن ‘‘ کا شکار ہے۔ کھیت خشک اور ملک صحرا میں تبدیل ہو رہا ہے۔ بجلی نہ ہونے کے باعث گھر تاریک اور خلقِ خدا حبس سے مر رہی ہے اور …ع
وہ حبس ہے کہ لُو کی دعا مانگتے ہیں لوگ
صنعت تباہ اور مزدور بے روزگار ہے۔ ایسے میں اے این پی کے سینیٹر صاحبان نے اپنی کسی تکلیف کے اظہار کی بجائے یہ فرمایا ہے کہ یہ ڈیم پنجاب کے مفاد میں ہے (اس لئے ہمیں وارا نہیں کھاتا)۔ گویا پنجاب سے نفرت ملک بھر کی تباہی اور بربادی کا باعث بن رہی ہے۔ آج اس حوالے سے ایک نئی تجویز سامنے آئی ہے۔ کسی ریفرنس کے سلسلے میں 2003ء کی ذاتی ڈائری دیکھ رہا تھا کہ 20 فروری کی تاریخ کے صفحے پر یہ سطور نظر سے گزریں ’’واپڈا کے سابق چیئرمین جنرل (ر) زاہد علی اکبر سمیت بہت سے آبی ماہرین نے سندھ اور دوسرے صوبوں کے طرز عمل سے مایوس ہو کر کالا باغ ڈیم کے حوالے سے ایک نئی تجویز دی ہے کہ صوبہ پنجاب دریائے سندھ سے اپنے حصے کا پانی سٹور کرنے کیلئے سائز چھوٹا کر کے کالا باغ ڈیم خود تعمیر کر لے اور پھر سندھ‘ سرحد‘ بلوچستان اپنے حصوں کے پانی کو دریا میں رہنے دیں سمندر میں پھینکیںیا کوئی اور انتظام کر لیں یہ ان کی صوابدید ہے۔‘‘ (زیادہ تفصیل اس دن کے اخبارات میں ہو گی جو دستیاب نہیں)۔
میرے خیال میں پہلا آپشن تو یہی ہے کہ صوبوں کو قائل کرنا چاہیے اور اس ڈیم کی تعمیر میں ہرگز تاخیر نہیں ہونی چاہیے۔ پہلے ہی ہم کھربوں نہیں سینکڑوں کھربوں کا نقصان اٹھا چکے ہیں۔ بفرض محال وہ نہیں مانتے اور ملک کو تباہ کرنے پر تُلے ہیں تو پنجاب کو اپنا کالا باغ ڈیم تعمیر کر لینا چاہیے۔ تاخیر ہرگز گوارا نہیں!
سرحد کے مطالبے پر کالا باغ ڈیم کے ڈیزائن میں دس فٹ بلندی کم کر دی گئی تھی مگر اے این پی کا پرنالہ وہیں رہا۔ پنجاب کے ڈیم سے یہ بلندی اور گھٹ جائے گی۔ وہ مطمئن رہیں۔ سندھ کو دریا کا پانی سمندر میں گرانے کا بہت شوق ہے وہ بھی اپنا شوق پورا کر لے۔ بلوچستان بھی سوچ لے کہ وہ اپنے حصے کا پانی کے کیا مصرف چاہتا ہے۔ پنجاب کیلئے کالاباغ ڈیم کیلئے فنڈز کی فراہمی کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے عالمی مالیاتی ادارے شوق سے فنڈز دیں گے۔ اس ڈیم کے نام پر ’بانڈ‘ جاری کریں اور تماشا دیکھیں۔ پنجابی کیا کرتے ہیں!