گذشتہ دنوں مسلم لیگ کے خواجہ آصف نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین اور صدر پاکستان آصف زرداری کے بارے میں شکوہ بڑا بھرپور انداز میں پڑھا۔ جوابِ شکوہ کے طور پر فوزیہ وہاب جو پیپلزپارٹی کی سیکرٹری اطلاعات ہیں‘ بڑے کڑوے کسیلے انداز میں دفاع کرنے کی کوشش کی۔ ان کا انداز خاصا جارحانہ تھا کہ خواجہ آصف کو تپ چڑھ گیا۔ انہوں نے نہ صرف فوزیہ وہاب کی تقریر میں مداخلت کی بلکہ ان کو بتایا اور جتلایا کہ وہ جن صاحب کا دفاع کر رہی ہیں ماضی میں ان کی ان کے بارے میں جو رائے رہی ہے اگر اس کو اس ایوان میں دہرا دیا جائے تو تمہارا جواب شکوہ میری طرح الزام بن جائیگا۔ فوزیہ وہاب کے جذباتی بلبلے پر فوری اثر ہوا۔ انہوں نے عقلمندی کا بروقت مظاہرہ کیا اور خاموشی اختیار کر لی۔ اب خواجہ آصف کیلئے میدان خالی تھا۔ ایسے میں خواجہ آصف کا حساب برابر کرنے کیلئے پیپلز پارٹی کی طرف سے ہمارے سفیر برائے امریکہ کی زوجہ محترمہ فرح اصفہانی نے مورچہ لگایا۔ انہوں نے صدرِ پاکستان کا دفاع کم اور صفائی زیادہ پیش کی مگر ان کی بات پر اعتبار کرنا ایوان کو مشکل لگ رہا تھا۔ ایک تو وہ صدر پاکستان کی ترجمان کی حیثیت سے بات کر رہی تھیں ان کا اندازِ بیاں بھی قصیدہ گو کی طرح سے تھا۔
مسلم لیگ نواز کے جناب جاوید ہاشمی صوبہ پنجاب کے صوبیدار شہباز شریف کی میانہ روی کی پالیسی سے متفق نہیں لگتے۔ اب اگلے ہی دن انہوں نے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی انتخابی صلاحیت پر اپنی تشویش کا اظہار کیا۔ ان کا سرائیکی صوبے پر ابھی ردعمل سامنے نہیں آیا مگر پیپلزپارٹی کے اندرونی حلقے نواز لیگ کا زور ختم کرنے کیلئے علیحدہ سرائیکی صوبے کے معاملہ کو اہم بنانے میں اندرونِ خانہ سرگرم عمل ہیں۔ ان کی حلیف جماعت ایم کیو ایم اس سلسلہ میں پیش پیش ہے۔ وہ جنوبی پنجاب میں طالبان کے سلسلہ میں اپنی پیش بندی کر رہے ہیں۔ یہ سب کچھ اس وقت ہو رہا ہے جب پاکستان کی افواج صوبہ سرحد میں طالبان سے حالتِ جنگ میں ہیں۔ یہ بات اس لئے پریشان کن ہے کہ مرکز کی نوکر شاہی صوبوں کو لڑانے میں خاصی مشاق ہے۔ نوکر شاہی کے رویہ کی وجہ سے بلوچ دوسرے صوبوں سے بدزن ہیں۔ اب بھی نوکرشاہی اپنی من مانی کرکے عوام کی زندگی تنگ کر رہی ہے۔ صوبہ سرحد کے دربدر لوگ نوکرشاہی کی پالیسی کی وجہ سے بہت ہی تنگ ہیں۔ ان کی امدادی رقم نوکرشاہی اپنی مرضی سے خرچ کر رہی ہے جس سے حالات مزید خراب ہو سکتے ہیں۔
صوبہ سرحد میں فوج کا مورچہ ’’راہِ راست‘‘ ابھی تک پورے زوروشور سے جاری ہے۔ فوج کو خاصی کامیابی بھی ملی ہے مگر حالات پوری طرح کنٹرول میں نہیں لگتے جبکہ میدانِ جنگ اب سوات کے باہر فاٹا کے علاقے تک جم چکا ہے۔ اس جنگی کارروائی میں ہماری فوج کو جانی نقصان کافی برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔ یہ بات خاصی تشویشناک ہے۔ ایک پیشہ ورانہ فوج کیلئے جانی نقصان سب سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔ اس مرحلہ پر فوج کو جو مشورے ہمارے لوگ دے رہے ہیں وہ خاصے قابلِ توجہ ہیں۔ فوج کو جنگی میدان کو وسعت نہیں دینا چاہئے۔ پہلے سوات پر مکمل کنٹرول حاصل کرنا ضروری ہے اس کے بعد دوسرے علاقوں پر توجہ دی جا سکتی ہے۔ اگر جنگ کا دورانیہ بڑھ گیا تو صوبوں میں عوام کا مزاج بدل سکتا ہے اور یہ بات اس وقت سب سے اہم ہے۔
مسلم لیگ نواز کے جناب جاوید ہاشمی صوبہ پنجاب کے صوبیدار شہباز شریف کی میانہ روی کی پالیسی سے متفق نہیں لگتے۔ اب اگلے ہی دن انہوں نے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی انتخابی صلاحیت پر اپنی تشویش کا اظہار کیا۔ ان کا سرائیکی صوبے پر ابھی ردعمل سامنے نہیں آیا مگر پیپلزپارٹی کے اندرونی حلقے نواز لیگ کا زور ختم کرنے کیلئے علیحدہ سرائیکی صوبے کے معاملہ کو اہم بنانے میں اندرونِ خانہ سرگرم عمل ہیں۔ ان کی حلیف جماعت ایم کیو ایم اس سلسلہ میں پیش پیش ہے۔ وہ جنوبی پنجاب میں طالبان کے سلسلہ میں اپنی پیش بندی کر رہے ہیں۔ یہ سب کچھ اس وقت ہو رہا ہے جب پاکستان کی افواج صوبہ سرحد میں طالبان سے حالتِ جنگ میں ہیں۔ یہ بات اس لئے پریشان کن ہے کہ مرکز کی نوکر شاہی صوبوں کو لڑانے میں خاصی مشاق ہے۔ نوکر شاہی کے رویہ کی وجہ سے بلوچ دوسرے صوبوں سے بدزن ہیں۔ اب بھی نوکرشاہی اپنی من مانی کرکے عوام کی زندگی تنگ کر رہی ہے۔ صوبہ سرحد کے دربدر لوگ نوکرشاہی کی پالیسی کی وجہ سے بہت ہی تنگ ہیں۔ ان کی امدادی رقم نوکرشاہی اپنی مرضی سے خرچ کر رہی ہے جس سے حالات مزید خراب ہو سکتے ہیں۔
صوبہ سرحد میں فوج کا مورچہ ’’راہِ راست‘‘ ابھی تک پورے زوروشور سے جاری ہے۔ فوج کو خاصی کامیابی بھی ملی ہے مگر حالات پوری طرح کنٹرول میں نہیں لگتے جبکہ میدانِ جنگ اب سوات کے باہر فاٹا کے علاقے تک جم چکا ہے۔ اس جنگی کارروائی میں ہماری فوج کو جانی نقصان کافی برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔ یہ بات خاصی تشویشناک ہے۔ ایک پیشہ ورانہ فوج کیلئے جانی نقصان سب سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔ اس مرحلہ پر فوج کو جو مشورے ہمارے لوگ دے رہے ہیں وہ خاصے قابلِ توجہ ہیں۔ فوج کو جنگی میدان کو وسعت نہیں دینا چاہئے۔ پہلے سوات پر مکمل کنٹرول حاصل کرنا ضروری ہے اس کے بعد دوسرے علاقوں پر توجہ دی جا سکتی ہے۔ اگر جنگ کا دورانیہ بڑھ گیا تو صوبوں میں عوام کا مزاج بدل سکتا ہے اور یہ بات اس وقت سب سے اہم ہے۔