مسلم لیگ نواز کے جناب جاوید ہاشمی صوبہ پنجاب کے صوبیدار شہباز شریف کی میانہ روی کی پالیسی سے متفق نہیں لگتے۔ اب اگلے ہی دن انہوں نے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی انتخابی صلاحیت پر اپنی تشویش کا اظہار کیا۔ ان کا سرائیکی صوبے پر ابھی ردعمل سامنے نہیں آیا مگر پیپلزپارٹی کے اندرونی حلقے نواز لیگ کا زور ختم کرنے کیلئے علیحدہ سرائیکی صوبے کے معاملہ کو اہم بنانے میں اندرونِ خانہ سرگرم عمل ہیں۔ ان کی حلیف جماعت ایم کیو ایم اس سلسلہ میں پیش پیش ہے۔ وہ جنوبی پنجاب میں طالبان کے سلسلہ میں اپنی پیش بندی کر رہے ہیں۔ یہ سب کچھ اس وقت ہو رہا ہے جب پاکستان کی افواج صوبہ سرحد میں طالبان سے حالتِ جنگ میں ہیں۔ یہ بات اس لئے پریشان کن ہے کہ مرکز کی نوکر شاہی صوبوں کو لڑانے میں خاصی مشاق ہے۔ نوکر شاہی کے رویہ کی وجہ سے بلوچ دوسرے صوبوں سے بدزن ہیں۔ اب بھی نوکرشاہی اپنی من مانی کرکے عوام کی زندگی تنگ کر رہی ہے۔ صوبہ سرحد کے دربدر لوگ نوکرشاہی کی پالیسی کی وجہ سے بہت ہی تنگ ہیں۔ ان کی امدادی رقم نوکرشاہی اپنی مرضی سے خرچ کر رہی ہے جس سے حالات مزید خراب ہو سکتے ہیں۔
صوبہ سرحد میں فوج کا مورچہ ’’راہِ راست‘‘ ابھی تک پورے زوروشور سے جاری ہے۔ فوج کو خاصی کامیابی بھی ملی ہے مگر حالات پوری طرح کنٹرول میں نہیں لگتے جبکہ میدانِ جنگ اب سوات کے باہر فاٹا کے علاقے تک جم چکا ہے۔ اس جنگی کارروائی میں ہماری فوج کو جانی نقصان کافی برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔ یہ بات خاصی تشویشناک ہے۔ ایک پیشہ ورانہ فوج کیلئے جانی نقصان سب سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔ اس مرحلہ پر فوج کو جو مشورے ہمارے لوگ دے رہے ہیں وہ خاصے قابلِ توجہ ہیں۔ فوج کو جنگی میدان کو وسعت نہیں دینا چاہئے۔ پہلے سوات پر مکمل کنٹرول حاصل کرنا ضروری ہے اس کے بعد دوسرے علاقوں پر توجہ دی جا سکتی ہے۔ اگر جنگ کا دورانیہ بڑھ گیا تو صوبوں میں عوام کا مزاج بدل سکتا ہے اور یہ بات اس وقت سب سے اہم ہے۔