پرستار

اے سی بسوں کی بڑی تعریفیں سُنی تھیں۔ پنڈی جانے کے لئے اسی میں سفر کا ارادہ کیا۔ شہر سے باہر نکلنے تک ڈرائیور نے تین مرتبہ پورے زور سے بریکیں لگائیں تو کچھ مسافر بڑبڑائے‘ کچھ نے کلمہ اور درود شریف کا ورد شروع کر دیا۔ شہر سے نکلتے ہی ڈرائیور نے دوسری بس کو کراس کرتے اتنی سخت بریک لگائی کہ ٹائروں سے دھواں اٹھتا نظر آیا‘ زلزلے جیسی آواز بھی سنائی دی‘ مسافر ٹھک ٹھک اگلی سیٹوں سے لگے تو میرے ساتھ بیٹھے اجنبی نے اونچی آواز سے ڈرائیور کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ’’اس نوں بس رہن دے جہاز نہ بنا‘‘ ساتھ میری طرف دیکھتے ہوئے کہا ’’اس کو تمیز نہیں ہے ڈرائیوری کی۔‘‘ ’’جناب ابھی تو سفر شروع ہوا ہے آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔‘‘ یہ میرا اور اس اجنبی کا پہلا مکالمہ تھا پھر پورے سفر میں سلسلہ جنبانی جاری رہا۔ اس صاحب کی عمر مجھ سے تقریباً دس سال زیادہ تھی جس کا اس نے پورا پورا استعمال کیا وہ مجھے کبھی تُو اور کبھی تم کہہ کر پکارتا‘ میں کسمساتا ضرور‘ لیکن وضعداری اور رواداری میں اسے ٹوکا نہ ترکی بہ ترکی جواب دیا۔ یہ بھی اس پر منحصر تھا کہ سوال و جواب میں وہ اردو بولتا تھا یا پنجابی۔ بہرحال سفر کٹ رہا تھا‘ بولنے کی زیادہ تر ذمہ داری اسی نے اٹھا رکھی تھی۔ اس کے پوچھنے پر جب میں نے بتایا کہ پروفیسر ہوں تو اس نے جھٹ سے اپنا ہاتھ کھول کر میرے سامنے کرتے ہوئے کہا ’’پھر میری قسمت بتا‘‘ ۔۔ اس کی اس حرکت پر میں پریشان ہو رہا تھا کہ اس نے ہاتھ واپس کرتے ہوئے کہا ’’تم نہیں بتا سکو گے‘‘ اس کے دوسرے عمل سے میں پورا پریشان ہو چکا تھا۔ میں نے عرض کیا جناب مجھے سمجھ نہیں آئی کہ آپ نے ہاتھ بڑھایا پھر کھینچ لیا؟ ’’اس میں سمجھنے کی کونسی بات ہے تم پروفیسر ہو لوگوں کو قسمت کا حال بتاتے ہو‘ اس لئے ہاتھ تمہیں دکھایا لیکن تمہارے پاس تو طوطے ہی نہیں ہیں اس لئے ہاتھ کھینچ لیا۔ اگر طوطوں کے بغیر ہاتھ دیکھ سکتے ہو تو بسم اللہ کریں۔‘‘ میں نے اسے بتایا بھائی میں کالج میں پڑھاتا ہوں۔ ’’پھر تو وارے نیارے ہوں گے‘ تنخواہ حکومت سے‘ اور کام اکیڈیمیوں میں‘‘ ۔۔ ’’نہیں میں ٹیوشن وغیرہ نہیں پڑھاتا‘‘ میں نے جواب دیا!
’’پھر کیا کرتے ہو‘‘ اس سوال کے جواب میں مَیں نے کالم نگار ہونے کا بتایا تو وہ باقاعدہ مرعوب ہو گیا اور کہا پھر بڑے پرستار ہوں گے آپ کے۔ وزیراعظم‘ صدر‘ گورنر‘ وزیر اعلیٰ اور بڑے بڑے سرکاری عہدیداروں سے علیک سلیک ہو گی‘ ان کے دفتروں میں جب چاہو چلے جاتے ہوں گے۔‘‘ اس کے منہ سے پہلی بار اپنے لئے آپ کا لفظ سُنا تو کچھ طمانیت سی محسوس ہوئی اور جو کچھ وہ کہہ رہا تھا سُن کر تفاخر سے سر تھوڑا بلند ہو گیا۔ ’’میری بیوی بھی کہتی تھی کہ اگر پڑھا لکھا ہوتا تو میں بھی کالم نگار یا فنکار لگ جاتا اور پرستاروں کی لائن لگی رہتی‘‘ وہ بات جاری رکھے ہوئے تھا تو ڈرائیور نے ایک اور قیامت خیز بریک لگا دی۔ میں نے باتونی ساتھی سے کہا اب بیوی کے لئے لفظ بیوہ استعمال کرنا اس ڈرائیور کا کچھ پتہ نہیں کہ ہمیں کہاں پہنچا کر دم لے۔ بہرحال پرستاروں کا اس نے کہا تو مجھے ساتھی کالم نگار یاد آ گئے جو تحائف کی وصولی کے قصے سناتے رہتے ہیں۔ کئی کالم نگار اور صحافی تو میں نے اپنی آنکھوں کے سامنے وزیر اور مشیر بنتے دیکھے ہیں۔حسرت یہی رہتی ہے کہ ہمارا بھی کوئی پرستار ہو جو ہماری خدمت کرے لیکن یہاں چکر الٹا ہے۔ جس روز کالم لگتا ہے شیخ صاحب کریانے والے مجھے گھر سے نکلتے ہی مبارکباد دیتے ہیں۔ انہوں نے خود اخبار نہیں لگوایا وہ اخبار فروش سے میرا اخبار لے کر کام کی خبریں دیکھنے کے بعد میرے گھر پھینک دیتے ہیں۔ کیا کالم لکھا ہے کمال کر دیا مزا آ گیا‘ چل چھوٹے اسی خوشی میں دو چائے لے کر آ۔ چائے آنے سے قبل دو بوتلیں کھولتے ہیں ایک اپنے لئے دوسری میرے لئے۔ چائے آنے پر فروٹ کیک بھی مبارکباد کا حصہ بن جاتا ہے جس پر ان کا حق زیادہ ٹھہرتا ہے۔ آخر میں رجسٹر اٹھا کر خرچہ میرے کھاتے میں لکھ کر کہتے ہیں ’’خدا کرے زورِ قلم اور زیادہ‘‘

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...