میں کمشنری نظام بحال کرنے کے تین مختلف آرڈیننسز پردستخط کیے جس کے تحت صوبے بھر میں پولیس آرڈردوہزار دو کو ختم کرکے پولیس ایکٹ اٹھارہ سو اکسٹھ اور سندھ لوکل گورنمنٹ آرڈیننس دوہزارایک کو ختم کرکے سندھ لوکل گورنمنٹ آرڈیننس انیس سو اناسی بحال کردیئے گئے ہیں۔ کمشنری نظام کی بحالی کے ساتھ ہی سندھ کے پانچ ڈویژن بحال ہوگئے ہیں، نئے بننے والی ڈویژنوں میں کراچی،حیدرآباد،میر پور خاص،لاڑکانہ اورسکھر ڈویژن شامل ہیں،آرڈیننس کے تحت کراچی کے
شرقی،غربی،وسطی،جنوبی اورملیرکے اضلاع بھی بحال کر دئیے گئے ہیں جبکہ حیدرآباد ضلع
اورکراچی ڈویلپمنٹ اتھارٹی کو اپنی پرانی حیثیت میں بحال کیا گیا ہے،آرڈیننس میں کہا گیا ہے کہ سندھ میں ڈی سی اوز کی جگہ کمشنرز تعینات کیے جائیں گے جبکہ کراچی کی شہری حکومت کی جگہ اب کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن کام کرے گی تاہم کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ حکومت سندھ کے ماتحت ہو گا ،دوسری جانب اے این پی اور فنکشنل لیگ نے کمشنری نظام کی بحالی کا خیرمقدم جبکہ ایم کیو ایم نے مخالفت کی ہے۔ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے کمشنری نظام کے نفاذ کے خلاف لائحہ عمل تیار کرنے کے لیے رابطہ کمیٹی کا ہنگامی اجلاس طلب کر لیا ہے۔