اللہ پر ےقےن لانے والوں پراور اسلام کے نام لےوا مسلمانوں پر قرآن پاک کی تمام ہداےات قانون کی طرح نافذ کر دی گئیں۔ اس مےں سب سے بڑی ہداےت حصول علم تھی۔ ہداےت ہوئی علم حاصل کرو خواہ تمہےں چےن جانا پڑے۔ ذرائع آمدورفت نہ ہونے کی وجہ سے چےن جانا جان جوکھوں کا کام تھا۔ آج مےں اس قلم کو لےکر ششدر بےٹھی ہوں جب مےں نے اخبار مےںبولان ےونےورسٹی کی بے گناہ طالبات پر بم حملہ کے بارے مےںخبرپڑھی۔ ےہ کام کسی مسلمان نے کےا جس کے دل ودماغ پر اللہ نے مہر لگا دی۔ ےا پھر ےہ انتشار پھےلانے والے تشدّد پسند عناصر نے کےا جو دنےا کو ےہ پےغام دےنا چاہتے ہےں کہ اس اسلامی مملکت مےں لوگ علم ودانش اور تعلےم کے خلاف ہےں ۔ حالانکہ جب ےورپ مےں جہالت کے اندھیرے تھے جےومےٹری الجبرا ستاروں کے فنون اور علم و دانش کے بعدسپےن سے عےسائی ےورپ لے گئے اورانہےں Renaissance کی وجہ سے ےورپ مےں جہالت کے اندھےرے چھٹ گئے اور ےورپ علم ودانش سے روشن ہو گےا تحقےق اور رےسرچ کے دروازے کھل گئے ۔آج ہم ےورپ کی تقلےد مےں ہےںکےاتشدّد پسندی کے ےہ اقدامات کسی بھی عام سوچ رکھنے والے کو قائل کر سکتے ہےں کہ ےہ اقدام کسی Sadistکی کاروائی ہے جو صرف انتشار پھےلانا چاہتا ہے۔
دوسرا ذہنی جھٹکا مجھے تب لگا جب نماز جمعہ کے اجتماعات مےںعبادت کرنے والے بے گناہ انسانوں کو نشانہ بناےا گےا۔ اللہ کے گھر مےں اےک قاتل پناہ لے لے تو اسے اللہ کے گھر مےں قتل کرنے کی اجازت نہےں آپ گرفتار کرکے اُسے عدالتوں مےں لے جا سکتے ہےں مگر اللہ کے گھر کا تقدس پامال کرنے کی اجازت نہےں۔ تےسرا ذہنی دھچکا مجھے تب لگا تھا جب حج سکےنڈل سامنے آےا اور اسمےں متعدّد ہستےاں ملوث پائی گئےں۔ وہ گھر جو اسلام کی بےن الاقوامی شناخت ہے اور مجھے پہلی بار احساس ہوا کہ ہم انسانی قدروں اور اسلام کے بنےادی ڈھانچے سے کتنی دور ہو چکے ہےں۔ پھر ہم جب انسانی قدروں کے حوالے سے اُن لوگوں کا جائزہ لےں جنہےں ہم کافر کہتے ہےں تو پھر اپنے گرےبان مےں جھانکنے کو دل ہی نہےں چاہتا اےساہی مےں نے دوبئی مےں حالےہ visitمےں پاےا۔ مجھے دوبئی مےں مدراس کی اےک مسلمان عورت مساج کرنے کےلئے آتی تھی وہ بہت خوش تھی ۔مےں نے اُس سے اُسکی خوشی کا راز پوچھا۔ بولی مزدور عورت ہوں۔ اللہ کے گھر کا بلاوہ آےا ہے۔ مےں نے اُسے مبارکباد دی اور کہا تمہاری مزدوری کی اس کمائی مےں اللہ نے کتنی برکت ڈالی۔ و ہ خاموش رہی اور پھر بولی مےڈم ےہ جو مےں کماتی ہوں اسکا کچھ حصہ اُن غرےب لوگوں کو دےتی ہوں جومستحق ہوتے ہےںمگر آپ کو ےہ بات بتا رہی ہوں کہ مےرا عمرہ کا تمام خرچہ اےک ہندو برداشت کر رہا ہے۔ مےں نے پوچھا وہ کےسے؟ اُس نے کےا کہ زچگی کے دوران مےں نے اےک ہندو عورت کی خدمت کی اُس نے پوچھا تمہارے دل مےں کوئی حسرت ہے تو مجھے بتاﺅ۔ مےں نے اُسے بتاےا کہ عرصہ دراز سے اےک ہی خواہش مچل مچل جاتی ہے کہ مےں اللہ کا گھردےکھوں مگر مےرے پاس اخراجات نہےں ۔اُس نے کہا کہ جاﺅ اپنے مسلمان راہنماوں سے پوچھو کہ عمرہ پر کےا اےک ہندو تمہےںبھےج سکتا ہے۔ مےں نے کہا مےں بوڑھی عورت ہوں کہاں جاﺅ ںگی۔ آپ اپنے خاوند سے کہووہ پوچھ لے پھر اُسکے خاوند نے اہل دےن سے فتوی لےا اوراب وہ مےرے عمرہ کا تمام خرچہ برداشت کر رہا ہے۔ مےرا دل اُس ہندو خاندان کےلئے احترام سے بھر گےا۔ اےک ہندو جسے ہم کافر کہتے ہےں کعبہ کی حرمت کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اےک مزدور عورت کے خوابوں کی تکمےل کر رہا تھا۔ اور مےرے ہی اسلامی ملک مےں رہنے والے مسلمان نماز جمعہ کے دوران خود کش حملہ کر کے مسجد کو نےست ونابود کر دےتے ہےں۔
کون بہتر تھا وہ لوگ جو خود کو مسلمان کہتے ہےں ےا پھراےک کافر؟