اسلام آباد (رائٹر+ اے ایف پی+ وقائع نگار+ نوائے وقت رپورٹ) عرب ٹی وی نے ایبٹ آباد کمشن کی رپورٹ اپنی ویب سائٹ پر جاری کی ہے جس میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ اسامہ بن لادن کا ایبٹ آباد میں قیام فوجی انٹیلی جنس حکام، پولیس اور سویلین انتظامیہ کی مجموعی ناکامی تھی۔ اسامہ بن لادن ایک دہائی تک پاکستانی انٹیلی جنس اور مبینہ غفلت کے بغیر نہیں رہ سکتے تھے۔ الجزیرہ ٹی وی کے مطابق یہ رپورٹ 337 صفحات پر مشتمل ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ اسامہ بن لادن کی ایبٹ آباد میں موجودگی پر کوئی ادارہ یا فرد ذمہ دار نہیں تاہم اس کی موجودگی کی اطلاع دینا آئی ایس آئی کی ذمہ داری تھی۔ ا مریکی نیوی سیلز کو گراﺅنڈ سپورٹ حاصل تھی۔ صدر آصف زرداری، آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی اور اس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے کمیشن کو بیان قلمبند نہیں کرایا۔ آپریشن کے دوران امریکی نیوی سیلز کو زمینی مدد حاصل تھی۔ واضح رہے کہ ایبٹ آباد آپریشن کی جسٹس (ر) جاوید اقبال کی سربراہی میں تحقیقات کرنے والے کمشن نے تاحال رپورٹ جاری نہیں کی۔ کمشن نے 201 گواہوں کے بیانات قلمبند کئے ہیں جن میں چار سابق وفاقی وزرا، 35 سول سرونٹ، 14 فوجی اہلکار، پاک فضائیہ کے 13 اور آئی ایس آئی کے 11 اہلکار بھی شامل ہیں۔ جی ایچ کیو، آئی ایس آئی اور پاک فضائیہ کی رپورٹس کو بھی کمیشن کی رپورٹ کا حصہ بنایا گیا ہے۔ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ احمد شجاع پاشا اور ڈی جی ایم او نے اپنے بیان میں کہا ایبٹ آباد آپریشن کی ذمہ داری کسی ایک ادارے یا فرد کی نہیں سب کی تھی، قانون نافذ کرنیوالے اداروں نے آپریشن سے کچھ عرصہ قبل القاعدہ کے رہنما خالد شیخ محمد کو گرفتار کیا تھا اور گرفتار کے چار روز بعد انہیں امریکہ کے حوالے کر دیا گیا تھا۔ خالد شیخ محمد بیمار تھے، انہوں نے اسامہ بن لادن کے ٹھکانے کی کوئی اطلاع نہیں دی تھی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے آخری اطلاع صدر آصف علی زرداری کو صبح 6 بجکر 45 منٹ پر دی گئی جبکہ آپریشن رات بارہ بجے شروع ہوا تھا۔ صدر زرداری کو بھی جنرل کیانی نے فون کرکے اطلاع دی اس وقت آپریشن ختم ہوچکا تھا۔ ایبٹ آباد کمشن نے اسامہ بن لادن کی دو بیویوں اور بیٹیوں کے بیانات بھی قلمبند کئے ہیں۔ اسامہ بن لادن کے کمپاﺅنڈ کی انیکسی میں رہنے والی مریم نے بھی بیان ریکارڈ کرایا اور کہا ہے کہ حملہ کرنیوالوں میں عربی زبان بولنے والا فوجی بھی شامل تھا۔ الجزیرہ ٹی وی کے مطابق ایبٹ آباد کمشن رپورٹ میں کہا گیا ہے اسامہ کیخلاف آپریشن کے حوالے سے حکومت نے شدید نااہلی کا ثبوت دیا، حکومت پاکستان نے تحقیقات کے نام پر جان چھڑانے کی کوشش کی۔ اسامہ پاکستان میں 9 سال سے موجود ھے۔ انتہائی مطلوب شخص کا سراغ نہ ملنا حکومت کی لاپروائی اور نااہلی ہے۔ فرد یا ادارے دمہ دار نہیں۔ اسامہ بن لادن کی اطلاع دینے کی ذمہ داری آئی ایس آئی کی تھی۔ رپورٹ کے مطابق ایبٹ آباد آپریشن میں امریکی سیلز کو زمینی مدد فراہم کی گئی۔ آپریشن کے بعد پیغام رساں ابراہیم کی زخمی بیوی مریم کو ہسپتال لے جایا گیا۔ انیکسی میں رہنے والی مریم کی جانب سے بیان دیا گیا کمپا¶نڈ پر حملہ کرنیوالوں میں عربی بولنے والا فوجی بھی شامل تھا جبکہ کمپا¶نڈ میں موجود باقی لوگوں کو آئی ایس آئی تفصیلی تفتیش کیلئے ساتھ لے گئی۔ رپورٹ کے مطابق احمد شجاع پاشا کی جانب سے بیان دیا گیا خالد شیخ کو گفتاری کے محض 4 دن بعد امریکہ کے حوالے کر دیا گیا۔ خالد شیخ محمد بیمار تھے، اسامہ کے ٹھکانے کی کوئی اطلاع نہیں دی۔ احمد شجاع پاشا کی جانب سے یہ بھی بیان دیا گیا کہ امریکیوں نے ڈاکٹر شکیل آفریدی کی رہائی کیلئے کہا۔ عسکری ذرائع کے مطابق ڈی جی ایم او، ڈی ایم آئی نے اپنے بیانات قلم بند کرا دئیے تھے۔ پاک فوج کی نمائندگی ڈی جی ایم او، ڈی جی ایم آئی نے کی۔ اس وقت کے ایئر چیف مارشل را¶ قمر سلیمان بھی کمشن کو بیان دے چکے ہیں جبکہ آمی چیف جنرل کیانی کو ایبٹ آباد کمشن نے کبھی طلب نہیں کیا۔ رپورٹ کے مطابق صدر زرداری، یوسف رضا گیلانی اور آرمی چیف جنرل کیانی نے اپنا بیان نہیں دیا، 4 وفاقی وزرا، 35 سول سرونٹ اور 14 فوجی اہلکاروں نے بیانات ریکارڈ کرائے جبکہ پاک فضائیہ کے 13 اور آئی ایس آئی کے 11 اہلکاروں نے بھی گواہی ریکارڈ کرائی۔ آپریشن سے پہلے امریکی سفارت خانے کی 5 گاڑیاں ایبٹ آباد گئی تھیں، امریکی فوجی جواہرات کا ڈبہ اور اسامہ کی وصیت بھی ساتھ لے گئے تھے۔ اے پی اے کے مطابق ابیٹ آباد کمشن کی رپورٹ پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کی کم نظری کی وجہ سے ملک کی بدنامی ہوئی، پی اے ایف کو بہتر کارکردگی دکھانا چاہئے تھی۔ امریکہ پاکستان اور آئی ایس آئی کو تنہا کرنا چاہتا تھا۔ رپورٹ کے مطابق چھپنے کے بعد اسامہ کے پاس القاعدہ کا کنٹرول نہیں تھا۔ ایبٹ آباد کمیشن کی رپورٹ جو دنیا کے سب سے زیادہ مطلوب شخص کی تلاش کے حوالے سے معلومات کے ایسے خزانے پر مشتمل ہے، جسے تاحال عوامی سطح پر پیش نہیں کیا گیا ہے۔ نائین الیون سے قبل امریکی بحری جہاز کول اور افریقہ میں امریکی سفارتخانوں پر حملے میں ملو¿ث القاعدہ کے ایک رکن خالد بن عطاش کو جب 2002ءمیں کراچی سے گرفتار کیا گیا تو اسامہ کی تلاش کے حوالے سے یہ پہلی مثبت پیش رفت تھی۔یہی وہ فرد تھے جنہوں نے ابو احمد علی کویتی کی نشاندہی کی۔ یہ پاکستانی نڑاد کویتی اسامہ بن لادن کے دستِ راست اور پیغام رساں ہونے کے علاوہ اسامہ بن لادن کی طرف سے امریکی اراکین کی قیادت کا کام بھی کرتے تھے۔ خالد کی فراہم کردہ اطلاعات کی روشنی میں جب کویتی انٹیلیجنس سروس سے رابطہ کیا گیا تو وہ اس شخص کے بارے میں کوئی تفصیلات فراہم نہیں کر سکی۔ ایک ذرائع نے مذکورہ رپورٹ کے بارے میں آگاہی دیتے ہوئے بتایا 2009ءسے نومبر 2010ءکے عرصے میں اس شخص کی تلاش کے دوران سی آئی اے نے پاکستان کو چار ٹیلی فون نمبر فراہم کیے، لیکن کسی تفصیل کے بغیر کے وہ کس فرد کو تلاش کررہے ہیں۔یہ تمام ٹیلی فون نمبر زیادہ تر بند رہتے تھے، لیکن آئی ایس آئی نے سی آئی اے پر دباو¿ ڈالنا شروع کردیا کہ تفصیلات جانے بغیر کہ یہ نمبر کس کے ہیں یہ کام مشکل ہو گا۔ ماضی کے واقعات پر نظر ڈالتے ہوئے اب کمیشن کی رپورٹ نے تصدیق کردی ہے کہ عطاش کے انکشاف کے مطابق کویتی اسامہ بن لادن کا دستِ راست تھے۔ کمشن نے جو کچھ دریافت کیا ہے، اس کے مطابق کویتی اسامہ بن لادن کے خاندان کے ہمراہ کراچی میں اکتوبر یا نومبر 2001ءسے مقیم تھا۔جب 2002ءکے دوران اسامہ بن لادن کا خاندان، جس میں ان کی بیویاں بھی شامل تھیں، پشاور چلاگیا، تو اس وقت کویتی بھی ان کے ساتھ تھا۔ پھر 2002ءکے وسط میں اسامہ بن لادن بھی ان سے آن ملے تھے۔ یہاں سے پھر وہ سوات چلے گئے جہاں اسامہ بن لادن نے خالد محمد شیخ سے ملاقات کی تھی۔ ایک مہینے کے بعد خالد محمود شیخ کو راولپنڈی میں گرفتار کرلیا گیا، چنانچہ خوف کے باعث فوری طور پر اسامہ کے خاندان کو ہری پور منتقل کر دیا گیا۔کویتی اور ابرار فرار ہوکر سوات میں اکھٹا ہو گئے، جہاں اسامہ بن لادن بھی موجود تھے، پھر یہ سب 2005ءتک ہری پور میں مقیم رہے اور پھر یہ لوگ ایبٹ آباد منتقل ہو گئے، جس کی منصوبہ بندی اور انتظامات کویتی نے کئے۔ ذرائع نے مشروط طور پر بتایا کہ کویتی نے ہی ایبٹ آباد میں ایک جعلی شناختی کارڈ پر ایک پلاٹ خریدا اور اس پر گھر کی تعمیر کی نگرانی بھی کی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ تین کمپلیکس پر مشتمل تھا، ایک اوپن کمپاو¿نڈ، ایک ملحقہ گھر جس میں کویتی اور اس کا گھرانہ رہتا تھا، جبکہ مرکزی حصہ تین منزلہ گھر پر مشتمل تھا۔ دونوں بالائی منزلیں اسامہ بن لادن اور ان کی فیملی کے زیر استعمال تھیں۔ ان کی سب سے چھوٹی بیوی کا قیام دوسری منزل پر تھا جبکہ ان کی پ±رانی بیویاں شریفہ اور خائرہ، پہلی منزل پر مقیم تھیں۔ کویتی کا بھائی ابرا اور اس کی بیوی اسی گھر کے گراو¿نڈ فلور پر پر رہتے تھے۔رپورٹ کے مطابق پاک فضائیہ کے سربراہ را¶ قمر سلیمان نے کمشن کو بتایا کہ پاکستان افغان سرحد پر نچلی سطح کے راڈار نصب نہیں، رپورٹ میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ پاک فضائیہ کو امریکی ہیلی کاپٹروں کے پاکستان میں داخل ہونے کی اطلاع ہی نہ مل پائی۔ ڈی جی ملٹری آپریشنز نے کمشن کو بیان دیا کہ آرمی چیف نے ایئر چیف کو فون پر حملے کی اطلاع دی اور ہیلی کاپٹروں کو مار گرانے کا حکم بھی دیا۔ ڈی جی ایم او نے واقعہ کی ذمہ داری قبول کرنے کی بجائے کہا کہ یہ واقعہ دراصل ایک اتحادی کی طرف سے اعتماد کو ٹھیس پہنچانے کے مترادف تھا۔ احمد شجاع پاشا نے کہا کہ اسامہ کے ساتھی خالد شیخ محمد سے بیماری کے باعث تفتیش نہیں ہو سکی تھی۔ امریکہ سعودی عرب جیسے دوست ممالک کے ذریعے شکیل آفریدی کی رہائی کا مقصد حاصل کرنا چاہتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق شکیل آفریدی نے بیان میں کہا کہ انہیں سی آئی اے کا پتا تھا نہ اسامہ بن لادن کا، انہوں نے محض ایک غیر سرکاری تنظیم کے لئے بچوں کی ویکسی نیشن کا کام کیا۔
ایبٹ آباد کمشن رپورٹ
اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ + اے پی اے) ایبٹ آباد کمشن کے سربراہ جسٹس (ر) جاوید اقبال نے غیر ملکی میڈیا کی جانب سے ایبٹ آباد کمشن کی رپورٹ کے منظر عام پر آنیوالی خبروں کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسی خبریں اور رپورٹ تیار ہونے سے پہلے بھی آتی رہتی ہیں۔ غیر ملکی میڈیا کی تمام خبریں مفروضے پر مبنی ہیں۔ کمشن نے 100 سے زائد سفارشات پیش کیں۔ غیرملکی میڈیا ایک بھی سامنے نہیں لا سکا، غیر ملکی میڈیا کی تمام خبریں اور انکشافات آپس میں متضاد ہیں، کمشن رپورٹ کو سامنے لانے کیلئے سفارش کر چکا ہے، سزا اور جزا کا اختیار کمشن نہیں حکومت کے پاس تھا، کمشن نے تمام اداروں کی ذمہ داری کا تعین کیا ہے، رپورٹ میں ذمہ داروں کا تعین کر دیا گیا ہے۔ جسٹس (ر) جاوید اقبال نے نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے غیر ملکی میڈیا کی جانب سے ایبٹ آباد کمشن کی رپورٹ کے حوالے سے تمام خبروں کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ایسی خبریں رپورٹ تیار ہونے سے قبل شائع کردی جاتی ہیں جس میں کوئی صداقت نہیں ہے۔ غیر ملکی میڈیا کی اپنی ہی خبروں اور انکشافات میں تضاد ہے۔ ایبٹ آباد کمشن تمام اداروں کی ذمہ داری کا تعین کر چکا ہے۔ کمشن اپنی رپورٹ میں ذمہ داروں کا بھی تعین کر چکا ہے۔ سزا اور جرا کا اختیار کمشن کو نہیں، حکومت کو تھا۔ غیر ملکی میڈیا ایک بھی سازش سامنے نہیں لا سکا۔ عسکری ذرائع کے مطابق فوج کے سربراہ کو ایبٹ آباد کمشن میں بیان دینے کیلئے طلب نہیں کیا گیا۔ ڈی جی ایم آئی اور ڈی جی ایم او نے ادارے کی نمائندگی کرتے ہوئے بیان دیا۔ ترجمان امریکی محکمہ خارجہ جینیفر ساکی نے کہا ہے کہ ایبٹ آباد کمشن کی رپورٹ پر ردعمل نہیں دے سکتے۔ جب تک رپورٹ شیئر نہیں کی جاتی ردعمل نہیں دیا جا سکتا۔ ایک سوال پر کہا کہ ایڈورڈ سنوڈن جرائم پیشہ سرگرمیو ں میں ملوث رہا اسے واپس لانا چاہتے ہیں۔
ترجمان