نبی اکرم پچیس برس کے تھے کہ آپ کی شادی حضرت خدیجہؓ سے ہوئی جن کی عمر (روایات کے مطابق ) اس وقت چالیس سال کی تھی اور جن کے دو شوہر اس سے پیشتر فوت ہو چکے تھے اور ان کے اولاد بھی تھی۔ حضرت خدیجہؓ قریش کے قبیلہ اسد کے سردار خویلد کی بیٹی تھیں۔ آپؓ عقل‘ خلق و ثروت میں ممتاز تھیں۔ ان کا دستور تھا کہ اپنے تجارتی سامان پر کسی کو اجیر مقرر کر کے شام اور یمن کے بازاروں میں بھیجا کرتی تھیں۔ آنحضرت چونکہ امین مشہور تھے اس لئے انہوں نے درخواست کی کہ آپ میرے تجارتی مال کو لے کر جائیں۔ آپ نے منظور فرما لیا اور ملک شام میں ان کا مال لے کر گئے۔ حضرت خدیجہؓ کا غلام میسرہ بھی ہمراہ تھا۔ وہاں بہت سا نفع حاصل ہوا۔ اس سفر سے واپس آنے کے بعد حضرت خدیجہؓ نے خود آنحضرت کے پاس اپنی لونڈی کو بھیج کر نکاح کی درخواست کی آپ نے رضامندی کا اظہار کیا اور ابو طالب سے ذکر کیا۔ انہوں نے حضرت خدیجہؓ کے چچا کو پیغام دیا۔ دونوں طرف سے لوگ جمع ہو گئے اور نکاح ہو گیا۔ حضرت خدیجہؓ 65 برس کی عمر تک آپ کی شریک زندگی رہیں بظاہر یہ جوڑ کس قدر انمل نظر آتا ہے لیکن ایسا ایک واقعہ بھی سامنے نہیں آتا جس میں اس جوڑے کی ازدواجی زندگی کے کسی معاملہ میں بھی ناخوشگواری تعلقات کی ذرا سی بھی خلش پائی جاتی ہو۔ میاں بیوی کے تعلقات کو قرآن کریم نے (تم ان کے لئے بمنزلہ لباس کے ہو اور وہ تمہارے لئے بمنزلہ لباس کے ) کے لطیف پیرایہ میں بیان کیا ہے حضور کی پرائیویٹ لائف سے حضرت خدیجہؓ آپ کے متعلق کس نتیجے پر پہنچی تھیں اس کا اندازہ اس سے لگ سکتا ہے کہ جب آپ نے اپنی پہلی وحی کے بعد حضرت خدیجہؓ سے اس کا ذکر کیا تو انہوں نے بلا تامل کہہ دیا کہ آپ‘ خدا کے رسول ہیں‘ میں آپ کی رسالت پر ایمان لاتی ہوں۔ حضرت خدیجہؓ ‘ صاحب مال و متاع تھیں لیکن وہ ب کچھ تبلیغ اسلام کی نذر ہوگیا۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ان مشکلات اور مصائب میں حضورکا ساتھ دیا جو مخالفین کی طرف سے حضور پر یورش کر کے آئیں ۔ حضرت خدیجہؓ نے ان سب کو بہ سکون قلب جھیلا اور ایک سچی رفیقہ حیات کی طرح سفر زندگی میں اپنی رفاقت کا ثبوت دیا۔ اس سے ظاہر ہے کہ ان‘ میاں بیوی کے تعلقات کس قدر خوشگوار و استوار تھے۔ اس قدر خوشگوار کہ ان کی یاد عمر بھر نبی اکرم کے لئے وجہ نشاط خاطر رہی۔ حضرت خدیجہؓ کی وفات کے بعد بھی حضور کا یہ معمول تھا کہ اگر گھر میں کوئی جانور ذبح ہوا ہے تو ڈھونڈھ ڈھونڈ کر حضرت خدیجہؓ کی ہم نشین عورتوں کے ہاں گوشت بھجواتے‘ ایک مرتبہ ایک بڑھیا آئی جس کی حضور نے بڑے التفات سے خیریت پوچھی‘ اس کے حالات دریافت فرماتے رہے جب وہ چلی گئی تو حضرت عائشہؓ نے پوچھا یہ کون تھی؟ حضور نے فرمایا۔ خدیجہؓ کے زمانہ میں یہ ہمارے ہاں آیا کرتی تھی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت خدیجہؓ کے حسن تعلقات کی یاد حضور کے قلب منور کے کس قدر نرم گوشے میں تھی۔
حضور کی ساری اولاد انہی کے بطن سے ہوئی حضرت فاطمہؓ ان کی سب سے چھوٹی بیٹی تھیں۔ حضرت خدیجہؓ اپنے بلند اخلاق اور نیکی کی وجہ سے مکہ میں ٬٬طاہرہ،، کے لقب سے یاد کی جاتی تھیں۔ نبوت کے ساتویں برس قریش نے رسول پاک اور انکے گھرانے والوں کو ایک گھاٹی ٬٬شعب ابی طالب“ میں نظربند کر دیا یہ زمانہ بڑی مصیبت کا تھا لیکن حضرت خدیجہؓ اس وقت بھی رسول کریم کی ہر مصیبت کی رفیق تھیں۔ نبوت کا دسواں سال شروع ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ابو طالب وفات پا گئے جو آپ کی حمایت میں شروع سے آخر تک سینہ سپر رہے۔ اس کے چند روز بعد 10 رمضان میں حضرت خدیجہ کبریؓ وفات پا گئیں۔ جو آپ کی سچی مشیر اور مددگار تھیں۔