موجودہ دَور میں علّامہ طاہر اُلقادری، جناب عمران خان ، جناب الطاف حسین، چودھری برادران حتّیٰ کہ امیر جماعتِ اسلامی جناب سراج اُلحق بھی ” داعیءانقلاب“ ہیں۔ کامیاب ”قائدِانقلاب“ کون ہو گا؟ تیل دیکھیں اور تیل کی دھار!۔
الطاف حسین کا ”شرِیفانہ اِنقلاب؟“
علّامہ طاہر اُلقادری نے اپنے ”انقلاب“ کے اِس نُکتے پر زور دِیا ہے کہ ”بد عنوان لوگوں کو مَیں خُود پھانسی دُوں گا خواہ اُن کی تعداد لاکھوں میں ہی کیوں نہ ہو ؟“ لیکن جناب الطاف حسین کہتے ہیں کہ ”جب پاک فوج دہشتگردوں کا صفایا کر دے گی تو ہم جاگیرداروں، وڈیروں اور کرپٹ سیاستدانوں کا محاسبہ کریں گے اور قومی دولت لُوٹنے والوں کو اُن کے اہلِ خانہ اور دودھ پیتے بچّوں سمیت "Chartered" طیاروں میں بٹھا کر اُن مُلکوں میں بھیج دیں گے، جہاں انہوں نے اپنی جاگیریں بنا رکھی ہیں“۔ ہے ناں کِتنا ”شریفانہ انقلاب؟“ قومی دولت لُوٹنے والوں کو الطاف بھائی اِس لئے عام طیاروں سے مُلک بدر نہیں کر رہے کہ کہیں اُنہیں کوئی ”انقلاب دُشمن گروہ“ اغواءکر کے کسی دوسرے مُلک نہ لے جائے۔ جناب الطاف حسین نے عوامی مسلم لیگ کے صدر کو مخاطب کرتے ہُوئے کہا کہ ”شیخ رشید احمد صاحب ! آپ کا وقت بھی آئے گا۔ مَیں آپ کو ڈنڈا اور ہتھکڑی دُوں گا جو آپ سب مکّاروں کو لگائیں گے“۔ یعنی ”الطاف حسینی انقلاب“ کے بعد جب ایم کیو ایم کی دوسرے درجے کی قیادت ”انقلاب“ کے ثمرات سے لُطف اندوز ہو رہی ہو گی تو شیخ رشید احمد ایک ڈنڈا اور ایک ہتھکڑ ی لے کر "Door To Door" پھِر رہے ہوں گے تو اُن کا بھابڑا بازار کا کوئی دوست اُن سے پوچھ سکتا ہے کہ ”شیخ جی! انقلاب دے چکراں وِچ پین دی تھاں جے تُسیں ویاہ کر لَیندے تاں چنگاں نئیں سی ؟“
ٹانگیں کھینچنے کا ” ضابطہءاخلاق“
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات جناب مشاہد اللہ خان اور جاپان سے آئے ہُوئے مسلم لیگ (ن) کے عہدیداروں سے مُلاقات میں گفتگو کرتے ہُوئے وزیرِاعظم میاں نواز شریف نے کہا کہ ”سیاسی جماعتوں کو ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے کی روِش ترک کرنا ہو گی گذشتہ عام انتخابات میں ہم نے کھُلے دِل سے تمام سیاسی جماعتوں کا مینڈیٹ تسلیم کر لِیا تھا تو ہمارے مینڈیٹ میں نقب لگانے والوں کو بھی اپنی باری کا انتظار کرنا چاہیے“ وزیرِاعظم صاحب کی بات تو صحیح ہے لیکن اُنہیںاِس طرح کی باتیں تو کسی پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہُوئے کرنا چاہیے تھِیں۔ بھلا جناب مشاہد اللہ خان عُمر کے اِس حِصّے میں مسلم لیگ ن کے مینڈیٹ میں نقب لگانے والوں کو گھر گھر جا کر کیسے سمجھائیں گے؟ کوئی اونچ نِیچ ہو گئی تو لینے کے دینے پڑ سکتے ہیں اور مسلم لیگ ن جاپان کے عہدیدار بھی جلد جاپان چلے جائیں۔
جہاں تک ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے کی روِش (طور، طریق یا ڈھنگ) کا تعلق ہے یہ تو اسی وقت سے چلی آرہی ہے جب سے اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو دو ٹانگوں سے نوازا ہے اورجب سے سیاسی جماعتوں کا (خاص طور پر پاکستان میں) جنم ہُوا ہے۔ ”نقب زنی“ اور ”عقب زنی“ بھی عملی سیاست کا حِصّہ ہے۔ ہمارے یہاں تو زیادہ تر فوجی اور سوِیلین سیاستدان عقبی دروازے سے ہی اِقتدار کے رنگ محل میں داخل ہوتے ہیں۔ عقبی دروازے کو چور دروازہ بھی کہا جاتا ہے۔ اِس دروازے سے داخل ہونے والوں کو ”چور“ کے بجائے ”نجات دہندہ“ کہا جاتا ہے لیکن اُن کے بارے میںکوئی بھی نہیں کہتا کہ ”چہ دلاور است دُزدے کہ بکف چراغ دارد“ یعنی ”چور کِتنا بہادر (بےباک) ہے کہ ہاتھ میں چراغ لے کر گھوم رہا ہے“ مناسب یہی ہے کہ سیاسی جماعتیں آپس میں طے کر لیں کہ کس جماعت کے مینڈیٹ میں کتنی مُدّت بعد نقب زنی کی جائے گی اور اُس کی ٹانگیں کھینچی جائیں گی اور کِس انداز میں؟ کیا ہی اچھا ہو کہ حُکمران جماعت اور حزبِ اختلاف کی جماعتوں میں ”ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے کا ”ضابطہءاخلاق“ بھی طے ہو جائے؟
”جسٹس خواجہ اور خواجگانِ حکومت“
سُپریم کورٹ نے آٹا اور دوسری اشیائے خُورونوش کی دِن بدن بڑھتی ہوئی قیمتوں سے متعلق قیمتوں کیس کے سماعت کے دَوران وفاق اور چاروں صوبوں کی طرف سے غریب عوام کو دی گئی "Subsidy" (مالی امداد) کی تفصیلات طلب کر لی ہیں۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ”کمیٹیاں بنانے سے لوگوںکا پیٹ نہیں بھرتا۔کیا اسمبلیوں سے بِل منظور کرنے سے بھوکوں کے پیٹ بھر جائیںگے؟ پاکستان اناج میں خُود کفیل ہے تو لوگ بھُوکے کیوں مر رہے ہیں؟ پیٹ بھرنے کے لئے لوگوں کو روٹی کی فراہمی کی ذمہ داری حکومت کی ہے۔ حکومت چلانا عدالت کا کام نہیں ہے“
جسٹس جواد ایس خواجہ کے اِن ریمارکس پر ہمارے وفاقی وزیرِخزانہ جناب اسحٰق ڈار کو ضرور غور کرنا چاہیے جو ہر ہفتہ یہ اعلان کر کے نہ جانے کِس کو خُوش کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ”ہمارے زرِ مبادلہ ذخائز بڑھ گئے ہیں اور اُن خواجگان ِ مسلم لیگ ن (خواجہ محمد آصف اور خواجہ سعد رفیق ) کو بھی جوہر روز اپنے ”ذوقِ خوش بیانی“ کا مظاہرہ کرتے ہُوئے اور میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کو خوش کرنے کے لئے اُن کے مخالفین کے خلاف تضحیکی بیانات جاری کرتے ہیں۔ بھُوکے ننگے اور بے گھر تو یہ چاہتے ہیں کہ 5 سال کے لئے منتخب ہونے والی حکومت نے اُن کے لئے کیا کِیا ہے؟ علّامہ اقبالؒ نے جب ”خواجہ“ (حاکم سردار) اور ”خواجگی“ (حکومت سرداری) کے بارے میں کہا تھا کہ....
”فلک نے کی ہے عطا اُن کو خواجگی کہ جنہیں!
خبر نہیں کہ روِشِ بندہ پروری کیا ہے؟“
تو یقیناً مصّورِ پاکستان کے ذہن میں آج کے دَور کے پاکستان کا نقشہ نہیں ہو گا اور نہ ہی بانیءپاکستان حضرت قائدِاعظمؒ کا یہ خواب تھا۔ قیامِ پاکستان سے قبل یہ بھی کہا جاتا تھا کہ ہِندو بنیا (بڑا اور چھوٹا تاجر) غریب مسلمانوں کو لُوٹتا ہے۔ اب بار بار حج اور عُمرے کی سعادت حاصل کرنے والا مسلمان بنیا اپنے ہی مسلمان بھائیوں کو لُوٹتا ہے ۔ جسٹس جواد ایس خواجہ اور اُن کے ساتھی جج صاحبان کی آئینی حدود و قیود ہیں۔ بھوکوں ،ننگوں اور بے گھرلوگوں کی ضرورتیں پوری کرنا تو ” خواجگانِ حکومت“ کی ذمہ داری ہے۔ دُنیا بھر کی تاریخ یہی بتاتی ہے کہ اگر کسی مُلک میں پیٹ بھرے لوگوں سے بھُوکے لوگوں کی تعداد بڑھ جائے تو طوائف الملوکی شروع ہو جاتی ہے۔ پھِر خواجگانِ حکومت بھی بدل جاتے ہیں۔ نامور شاعر ساحر لدھیانوی نے پہلے ہی کہہ دِیا تھا کہ
”بھُوک آداب کے سانچے میں نہیں ڈھل سکتی!“