آئینی دائرہِ کار ، زرداری اور دفاعی ادارے

حیرت کی بات ہے کہ دنیا بھر کی جمہوریتوں کی طرح پاکستانی سیاست میں متحرک اہم سیاسی رہنمائوں نے اپنی جمہوری ذمہ داریوں کو بخوبی پورا کرنے اور عوام الناس کی بہتری کیلئے بے لوث خدمت کے ذریعے ملک میں جمہوری نظیروں کو فروغ دینے کے بجائے کرپشن ، بدعنوانی اور اقربا پروری کے تحفظ کیلئے دھونس ، دھاندلی اور دھمکیوں کی سیاست کو اِس حد تک آگے بڑھا دیا ہے کہ جمہوریت کا چاند چہرہ ہی بجھ کر رہ گیا ہے گذشتہ دنوں متعدد نجی ٹی وی چینلز پر سابق صدر مملکت اورکرپشن کے حوالے سے بین الاقوامی میڈیا میں متنازعہ شخصیت آصف علی زرداری نے آئینی دائرہِ کار کی شدید خلاف ورزی کرتے ہوئے فوج کیخلاف تند و تیز تقریر کر گزرے ۔ اُنہوں نے فوج اور موجودہ آرمی چیف کا نام لئے بغیر اُنہیں سخت تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ آپ یہاں صرف تین برس کیلئے ہیں لیکن ہم ہمیشہ یہاں رہیں گے ، ہمیں تنگ نہ کرو ورنہ ہم تمہاری اینٹ سے اینٹ بجا دینگے اور تمام پاکستان کو بند کر دینگے ۔ آصف علی زرداری پاکستان کی ایک مقتدر سیاسی جماعت پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین ہیں لہذا دنیا بھر میں اُنکی تقریر کو حیرت سے سنا گیا۔ آئین کے آرٹیکل 63(g) کے تحت مسلح افواج کو بدنام کرنے یا مذاق اُڑانے پر ایسے ممبران اسمبلی کی رکنیت ختم کی جا سکتی ہے جبکہ آئین کے آرٹیکل 245 کے حوالے سے سول ایڈمنسٹریشن کی مدد کیلئے بلائی گئی فوج کے اقدامات کو ہائی کورٹس کی عملداری سے بھی مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے حیرت ہے کہ سیاست میں ہمیشہ رہنے کا دعویٰ کرنے کے بعد آصف علی زرداری نے ہسپانیہ کے مشہور و معروف لٹریری کردار ڈان کویکزیٹ (Don Quixote) کی طرح پن چکیوں پر حملے میں ناکامی کے بعد دبئی واپسی اختیار کرنے میں ہی عافیت سمجھی ہے ۔
اِس سے قبل زرداری صاحب سوئس حکام سے سوئس بنکوں کے لاکرز میں محفوظ اُنکی اہلیہ مرحومہ شہید بے نظیر بھٹو کے نام پر موجود ضبط شدہ جیولری کے حقوق ملکیت کا دعویٰ دائر کرنے پر میڈیا میں شہرت حاصل کر چکے ہیں جس پر سوئس حکام نے مبینہ طور پر حکومت پاکستان سے اِس لئے رائے طلب کی تھی کیونکہ اقوام عالم اِس اَمر میں یقین رکھتی ہیں کہ سوئس بنکوں میں کرپشن و بدعنوانی سے کمائی گئی دولت یا اِس دولت سے خریدی ہوئی پراپرٹی بدعنوان اور کرپٹ افراد کو واپس کرنے کے بجائے متاثرہ ملکوں کو دی جانی چاہیے اور اِسی حوالے سے یہ خبر بھی سامنے آئی کہ حکومت پاکستان نے سوئس عدالت میں پیش ہونیوالے سرکاری وکیل کو دئیے جانیوالے معاوضے کو معطل کر دیا ہے اور پھر سابق صدر زرداری سے قریبی تعلق رکھنے والے لندن میں تعینات پاکستانی ہائی کمشنر واجد شمس الحسن (جنہیں لندن میں تعینات ہونے کے باوجود سابق صدر زرداری کے سوئس بنکوں میں آف شور کمپنیوں کی مدد سے منی لانڈرننگ کیلئے کھولے گئے اکائونٹس سے متعلقہ دستاویزات سوئس حکام سے حاصل کرنے پر شہرت حاصل ہوئی تھی) نے اچانک اپنے عہدے سے استعفیٰ دیدیا ۔ حیرانی کی بات ہے کہ زرداری صاحب کی کرپشن کے حوالے سے مقدمات کو طول دینے کیلئے اُنکے سیاسی ہمراہیوں کا اُن کیخلاف گواہ کے طور پر پیش ہونے سے گریز کرنا، حتیٰ کہ زرداری صاحب کے ہی دور صدارت میں سابق وزیراعظم گیلانی کا زرداری صاحب کو مکافات عمل سے بچانے کیلئے سوئس مقدمات کے حوالے سے اپنی قانونی و آئینی ذمہ داری کو پورا کرنے کے بجائے اپنی برطرفی کو ہی قبول کر لینا اور پھر اُنکی جگہ آنیوالے دوسرے وزیراعظم کا عدالت عظمیٰ کے فیصلوں پر بروقت کاروائی کرنے کے بجائے سوئس مقدمات کو ٹائم بارڈ کرانے میں زیادہ دلچسپی لینے کا اقدام بھی جمہوری روایات کے منافی ہی شمار ہوگا حتیٰ کہ ایسے ہی غیر جمہوری اقدامات کے باعث پیپلز پارٹی کی حکومت عوامی حمایت کھو دینے کے سبب نئے انتخابات میں غیر معمولی شکست سے دوچار ہوئی۔ دوسری جانب واجد شمس الحسن جو زرداری حکومت کے گر جانے کے بعد بھی نواز شریف حکومت میں کافی عرصہ تک سفارتی فرائض سرانجام دیتے رہے تھے قوم کو یہ بتانے کے بجائے کہ کن حالات میں اُنہوں نے لندن میں پاکستانی سفیر ہونے کے باوجود سوئٹزلینڈ جا کر زرداری صاحب کے سوئس کورٹ مقدمات سے متعلق دستاویزات کو کن مقصد کے تحت حاصل کیا تھا، یکایک اپنے عہدے سے مستعٰفی ہوگئے ، کیوں ؟
یہ اَمر معنی خیز ہے کہ آصف علی زرداری محترمہ بے نظیر بھٹو کی مبینہ جیولری کے حوالے سے سوئس کورٹ میں کیوں گئے تھے ؟ عوام یہی سوچتے ہیں کہ وہ اقتدار سے علیحدگی کے بعد سوئس کورٹ سے اِس جائز و ناجائز دولت کے حصول کیلئے موجودہ حکومت کو اہم ریاستی معاملات میں اپنی پارٹی کی حمایت کا یقین دلاتے رہے تاکہ وہ اپنے مقصد میں کامیاب رہیں ؟ قطع نظر اِس سوال کے یہاں اِس اَمر کا جائزہ لینا مناسب ہوگا کہ بین اقوامی میڈیا اِس حوالے سے کیا لکھتا ہے ۔ دیگر مصنفین کے علاوہ بھٹو فیملی سے قربت رکھنے والے مقتدر برطانوی صحافی طارق علی نے 2008 میں اپنی کتاب " دی ڈوئل " میں زرداری صاحب کی دولت کے حوالے سے جو کچھ لکھا ہے وہ یقینا معنی خیز ہے۔ طارق علی لکھتے کہ مسٹر اور مسز آصف علی زرداری کے سوئس عدالت میں نہ پیش ہونے پرجولائی 2003 میں سوئس مجسٹریٹ ڈئنیل ڈیووڈ نے منی لانڈرننگ کیس میں ملزمان کو 6 ماہ قید کی سزا سنائی اور حکم دیا کہ 11.9 ملین امریکی ڈالر کی رقم حکومت پاکستان کے حوالے کی جائے۔ اِس سزا کیخلاف زرداری صاحب تو سوئس کورٹ میں پیش نہیں ہوئے البتہ محترمہ بے نظیر بھٹو 19 ستمبر 2005 میں نئی تحقیق کا مطالبہ کرتے ہوئے جینوا کورٹ میں پیش ہوئیں ۔ اُنہوں نے اپنے آپ کو اِس کیس سے علیحدہ کرتے ہوئے بیان دیا کہ اُنکا اِس دولت سے کوئی تعلق نہیں ہے کیونکہ اِس معاملے کا تعلق اُنکے شوہر اور اُنکی والدہ سے ہے اور اُنہیں اِن اکائونٹس کے بارے میں کوئی علم نہیں ہے ۔ اُنہوں نے اپنے بیان میں یہ بھی کہا کہ 120,000 پائونڈ اسٹرلنگ مالیت کا ہیروں کا ہار جو سوئس بنک لاکرز میں موجود ہے سے بھی اُن کا کوئی تعلق نہیں ہے البتہ وہ یہ ضرور جانتی ہیں کہ اُنکے شوہر زرداری نے یہ ہار اُن کیلئے خریدا تھا لیکن اُنہوں نے اِسے ایک نامناسب تحفہ قرار دیتے ہوئے قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا ۔ بہرحال پاکستانی عوام یہ ضرور جاننا چاہیں گے کہ سابق صدر زرداری کے زمانے میں ملک میں پھیلتی ہوئی کرپشن کے حوالے سے کیا حکومت سیاسی مصلحتوں سے بالا تر ہو کر احتساب کے نظام کو اشرافیہ کی کرپشن کیخلاف موثر بنانے پر غور و فکر کریگی کیونکہ اب تو عدالت عظمیٰ نے بھی نیب سے ایسے کرپشن کیسوں کی تفصیلات طلب کر لی ہیں ؟ بہرحال اربابِ جمہوریت کو اِس اَمر کو ضرور پیش نظر رکھنا چاہیے جیسا کہ جمہوریت کے علم بردار دانشورکہتے ہیں کہ کسی بھی ملک میں جمہوریت اُس وقت تک فروغ نہیں پا سکتی جب تک اِس جمہوریت کو ایماندار اور راست گو سیاست دان اپنی بھر پور جدوجہد سے آگے نہ لے جائیں تو کیا موجودہ کرپشن زدہ دور میں جمہوریت کو مستحکم بنیادوں پر قائم کرنے کیلئے قوم کو قائداعظم محمد علی جناح جیسے رہنما کی ضرورت نہیں ہے ؟

ای پیپر دی نیشن