محترمہ فاطمہ جناح کو بانی پاکستان کا ہمراز‘ ہم قدم اور ہم آواز ہونے کا شرف حاصل ہے‘ یہی وجہ ہے کہ آپ قیام پاکستان کے دوران ہمیشہ ہر آن قائداعظم کے شانہ بشانہ رہیں اور قوم سے اپنی محبت کا حق ادا کیا۔ آپ نے ہمیشہ قومی پسماندگی دور کرنے کی ہر ممکن کوشش کی اور اپنی ساری زندگی قوم کی خدمت کے لئے وقف کر دی اور زندگی بھر اپنی خدمات کو نا تو اچھالا اور نا ہی کبھی کسی صلہ کی کوئی کوشش یا توقع کی وہ اس لئے کہ آپ کا رتبہ بہت بلند تھا اور آپ حقیقی معنوں میں قوم کی ماں تھیں‘ ایسی ماں جس کا ہر لمحہ اپنی قوم‘ اپنے بچوں کی بہتری کیلئے اقدامات اور سوچ میں صرف ہوتا۔قوم سے حقیقی معنوں میں پیار کا اس سے بڑا اور ثبوت کیا ہو گا کہ آپکے شب و روز اسی غم اور پریشانی میں گزرے کہ اب جبکہ پاکستان قائم ہو چکا ہے۔ اس کے قیام کا صحیح حق ادا کیا جائے تاکہ اسکے قیام کا مقصد حاصل ہو سکے۔ اس کیلئے آپ وقتاً فوقتاً قوم سے مخاطب رہتیں تاکہ اپنے بچوں‘ اپنی قوم کو راہ راست سے ہٹنے سے روک سکیں۔ یہاں آپکے 11 ستمبر 1958ء کے دن قائداعظمؒ کی برسی کے موقع پر قوم سے خطاب میں اپنے خدشات کو دور کرنے کیلئے قوم کے سامنے ایک خوددار قوم کی تعریف جن الفاظ میں بیان کی وہ یہ ہے۔’’جو لوگ قیام پاکستان کے مخالف تھے۔ انہوں نے اپنے ہتھکنڈے ترک نہیں کئے۔ پاکستان کے خاتمے کی لڑائی لڑنے کیلئے غیر محسوس‘ خفیہ طریقے استعمال کئے جا رہے ہیں تاکہ مسلمانوں کو پھر کسمپرسی کی حالت میں پہنچا دیا جائے۔ ہم ان طاقتوں کا کشمیر‘ مشرقی پاکستان کے پٹ سن کے کھیتوں‘ تجارتی اور مالی حلقوں اور سرحدی علاقوں میں مقابلہ کر رہے ہیں پچھلے چند سالوں سے پاکستان کو ایسی صورتحال کا سامنا رہا ہے کہ دشمن طاقتیں اپنے آپ آہستہ آہستہ غیر محسوس طور پر انکا گلا کاٹ رہی ہیں۔ اگرچہ حال ہی میں اس معرکے کے بارے میں احساس کر لیا گیا ہے۔ تاہم ملک کو اس خطرے سے بچانے کی کوشش نہیں کی گئی۔ ہمارے سامنے فوری مسئلہ اس صورتحال کا مقابلہ کرکے ملک بچانے کا ہے۔ یاد رکھئے کہ! ’’بزدل موت سے قبل کئی بار مرتا ہے‘ جبکہ بہادر ایک بار مرتا ہے یہی ایک راستہ ہے۔ جوکہ ایک خوددار قوم کیلئے موزوں ہے۔‘‘اسی طرح ایک اور موقع پر 25 دسمبر 1951ء کو آپ نے قوم کے نام نشری خطاب میں فرمایا کہ…!
’’پاکستان کی آزادی اور بقاء کے نعرے لگانے والو! اپنی مملکت کی اس عظمت کو قائم رکھو۔ جس کی خاطر تم نے دنیا سے اپنے حقوق منوائے۔ اپنے ملک کی بقا کیلئے اندرونی اور بیرونی کسی ایسے اثر کو قبول نہ کرو۔ جس سے تمہارے قومی وقار کو ٹھیس پہنچے‘ قوم کی قسمت کی امید تمہارے ہاتھ میں ہے۔ اپنی ذمہ داریوں کو پہچانو اور اپنی بے پناہ قوت سے پاکستان کو ہر تباہی سے محفوظ رکھو۔ دنیا تمہیں آزمائش میں مبتلا کرنا چاہتی ہے۔ اسے تمہاری طاقت کا امتحان مقصود ہے۔ ایسا نہ ہو کہ تمہارے عزائم کو ٹھیس لگ جائے۔‘‘آپ کو اس بات کا بے حد شکوہ تھا کہ! قوم کو آخر کیا ہو گیا ہے؟ جھوٹ کے سہارے آخر کیوں زندہ رہنا چاہتے ہیں۔ کردار کا کھوکھلا پن آپ کو ہمیشہ خار کی طرح کھٹکتا‘‘