مولانا امیر حمزہ
اکیسویں پارے کا آغاز ’سورۃ عنکبوت‘‘ کے آخری حصے سے ہوتا ہے۔ ’’عنکبوت‘‘ کا معنی ’’مکڑی‘‘ ہے۔ اللہ تعالی نے مکہ کے مشرکین کو جو حضرت محمد کریمؐ کی دعوت توحید کو قبول کرنے کے لئے تیار نہ تھے مکڑی کی مثال دے کر سمجھایا کہ تم لوگ جو اپنے بتوں اور مورتیوں کی عبادت سے باز نہیں آتے۔ مشکل وقت میں ان کو پکارتے ہو ،تمہارا حال مکڑی جیسا ہے جس کا گھر تمام زمینی کیڑوں مکوڑوں سے کمزور ترین ہے۔ باریک ترین آبی تاروں کا اک جال ہے جو نہ گرمی سردی سے بچاتا ہے اور نہ دھوپ سے۔ نہ بارش اور آندھی سے اور نہ کسی حملہ کرنے والے کے حملے سے۔ بس ایک انگلی کے پور نے اسے ٹچ کیا ، سارا ہی گھر تباہ وبرباد ہوگیا۔ تو اے میرے پیارے نبیؐ کی دعوت کو نہ ماننے والو! اپنے جن معبودوں کی عبادت تم کرتے ہو اور ان کی عبادت کا تم لوگوں نے اک نظام بنا رکھا ہے۔ اس سسٹم میں تم نے پناہ لے رکھی ہے۔ یہ سارا کچھ دنیا میں بھی تار عنکبوت کی طرح میرے نبیؐ کے ہاتھوں سے بکھرنے والا ہے اور اگلی دنیا میں بھی یہ کسی کام آنے والا نہیں بلکہ جہنم میں لے جانے والا ہے اور اللہ کے دربار میں یہ کسی کام آنے والا نہیں۔
مشرکین مکہ کے بعد جب اہل کتاب کے ساتھ معاملے کی بات آئی تو اللہ تعالی نے مسلمانوں کو نصیحت فرمائی کہ یہود ونصاریٰ سے دین کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے جھگڑے کا انداز مت اپنائو۔ گفتگو کرو۔ اپنے دلائل دے کر بات کرو مگر انتہائی اچھے طریقے سے اور یہ رعایت اس لئے ان لوگوں کو دی گئی کیونکہ مشرکوں کا دین سرے سے بے بنیاد تھا جبکہ اہل کتاب اللہ تعالی کو مانتے تھے، الہامی کتابوں اور انبیاء پر ایمان رکھتے تھے۔ اگرچہ انہوں نے تبدیلیاں کرلی تھیں۔ مگر اس کے باوجود آخرت پر ایمان رکھتے تھے لہٰذا ان کے بارے میں مشرکین کی نسبت قدرے نرم رویہ اختیار کیا گیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کس قدر عدل کی علمبردار کتاب ہے۔ رسول کریمؐ کی تعلیم کس قدر انصاف والی ہے کہ کافر قرار دے کر سب کو ایک ہی لاٹھی سے نہیں ہانکتی بلکہ کفار میںخیر کے اعتبار سے جو جس قدر بہتر ہے اس کے مطابق حضورؐ کی تعلیم سلوک روا رکھتی ہے۔
اس پارے کی اگلی سورت کا نام ’’روم‘‘ ہے اس دور میں دنیا میں دو سب سے بڑی طاقتیں تھیں۔ ایک ایران کی مجوسی طاقت تھی جو آتش پرست تھے یعنی مشرکین مکہ جیسے مشرک تھے۔ انہوں نے ایک معبود کے بجائے دو بنا رکھے تھے۔ نفع دینے والے معبود کو یزداں اور نقصان والے معبود کو ایرمن کہتے تھے۔ دوسری طاقت اہل کتاب مسیحیوں کی تھی۔ ان کی سلطنت دو حصوں میں تقسیم تھی۔ یورپی سلطنت کا مرکز روم کا شہر تھا مگر یہ سپر پاور نہ تھی۔ یہ کمزور حکومت تھی۔ سپر پاور مشرق کی مسیحی سلطنت تھی۔ اس کا دارالحکومت ’’قسطنطنیہ‘‘ تھا۔ موجودہ دور کے سارے مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے تمام علاقوں پر قابض تھی۔ دونوں پاوروں کے درمیان جنگ ہوئی اور مشرق کی رومی سلطنت کو شکست ہو گئی اس پر مکہ کے مشرک بڑے خوش ہوئے کہ ہمارے بھائی جیت گئے مسلمان جو انتہائی کمزور تھے اور اپنے ایمان کی بقاء کی صابرانہ جنگ لڑ رہے تھے۔ وہ مشرکین کی دھمکی اور طعنہ کہ تم بھی اسی طرح مٹ جائو گے سن کر دل شکستہ ہوئے۔ اللہ نے سورۃ ’’روم‘‘ نازل کرکے بتلایا کہ کیا ہوا جو قریب کے علاقے میں رومی شکست کھا گئے، وہ عنقریب فاتح بن جائیں گے اور اس دن مسلمان بھی خوش ہوں گے چنانچہ ہجرت کے بعد جب مسلمان بدر کے موقع پر فاتح بنے تو رومی بھی ایرانیوں کو شکست دے کر فتح یاب ہوگئے، یوں مسلمانوں کو دوہری خوشیاں ملیں اور مشرکوں کو ڈبل ناکامیاں سے دوچار ہونا پڑا۔ اللہ کا وعدہ سچا ثابت ہوا۔
یہاں پھر وہی بات ہے کہ نظریات کے اعتبار سے غیر مسلموں میں سے یہود ونصاری مسلمانوں کے قریب ہیں لہٰذا اسلام نے اس بات کا خیال رکھا ہے کہ اہل کتاب عورتوں سے نکاح بھی جائز رکھا اور ان کے ذبیحہ کو بھی حلال رکھا لیکن صاحب اقتدار مسیحی لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ چودہ سو سال قبل بھی مسلمانوں کے قریب آنے کی بجائے مشرکین مکہ سے دوستیاں کرتے تھے۔ مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کے لئے ان سے معاہدے کرتے تھے اور آج بھی یہی حال ہے کہ امریکہ اور یورپی طاقتیں پاکستان کے خلاف انڈیا کے بت پرست ہندوئوں کی مدد کریں گے، کشمیر کا مسئلہ ہو تب بھی ان کی ہمدردیاں انڈیا کے ساتھ ہی ہوں گی بلکہ کشمیر کا مسئلہ انہی کا پیدا کردہ ہے ، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ قرآن کس قدر عدل وانصاف روا رکھنے والی کتاب ہے۔ اسلام کس قدر نظریات کی بنیاد پر غیر مسلموں میں بھی فرق کرنے والی کتاب ہے۔ اپنے ساتھ ناانصافی کرنے والوں کو بھی انصاف دینے والی کتاب ہے۔
سورۃ ’’روم‘‘ میں اللہ تعالی نے اپنی کئی نشانیوں کا تذکرہ فرمایا ہے اور انسانوں کو غور وفکر کی دعوت دی ہے کہ وہ تفکر وتدبر کرکے اللہ کی توحید اور اس کی عظمت کو جانیں پہچانیں۔ ان نشانات میں سے دو نشانات جو انسانوں کی اپنی ذات سے تعلق رکھتے ہیں ان کا بھی تذکرہ فرمایا کہ اے انسانو! تمہاری زبانوں اور رنگوں کے الگ الگ اور مختلف ہونے میں بھی اہل علم کے لئے نشانات ہیں۔ 22عربی، انگریزی، چینی، فرانسیسی، اردو، ہندی، روسی، جرمن، سپینش اور دیگر سینکڑوں زبانیں اللہ کے نشانات ہیں۔ اسی طرح یہ زبانیں بولنے والے گورے ہیں اور کوئی کالے ہیں۔ گندمی رنگ والے ہیں، سرخ اور زرد ہیں یہ تمام رنگ بھی اللہ کے نشانات ہیں۔ اللہ نے اس کائنات میں جو چیز بھی بنائی ہے اس کی کئی کئی ورائٹیاں بنائی ہیں۔ اسی تنوع میں حسن ہے۔ انسان کی دلچسپی ہے مگر اس تنوع کو دیکھ کر کوئی قوم یا قبیلہ تعصب کا شکار ہو جائے کہ میری زبان سب سے اونچی ہے اور میرا رنگ سب سے اعلیٰ ہے تو یہ جہالت ہے۔ پھر اس جہالت کو آگے بڑھاتے ہوئے اس بنیاد پر اپنے سے مختلف رنگ کے انسانوں کو قتل کرنا شروع کردے تو یہ جہالت سے بڑھ کر درندگی کی شکل بن جائے گی۔ اس درندگی کے مناصر ہم آج اکیسویں صدی میں بھی کہیں کہیں دیکھتے ہیں۔ سورۃ روم میں رنگ اور زبان کا تذکرہ اس لئے بھی کیا گیا کہ اس تعصب کو سب سے زیادہ روم کی گوری اقوام نے اختیار کیا اور کالے رنگ کے لوگوں کو غلام بنایا۔ ان کو چڑیا گھروں میں رکھا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اس گندے تعصب کو آج کئی مسلمانوں نے بھی اپنا لیا۔ خود ہمارے پاکستان میں زبان کی بنیاد پر ہم تعصب کا آغاز کیا گیا۔ یہ سب جہالت کے مظاہرے ہیں۔
اس پارے کی اگلی سورت ’’لقمان‘‘ ہے حضرت لقمان اپنے بیٹے کو وصیت کرتے ہیں کہ اے میرے پیارے بیٹے! اللہ کے ساتھ شرک نہ کرنا کیونکہ یہ سب سے بڑا ظلم ہے۔ ساتھ ہی اللہ نے انسان کو وصیت فرما دی کہ اس ماں کا خیال ذہن میں لا جو تجھے نو ماہ تک پیٹ میں اٹھائے پھرتی رہی اس دوران اس پر کمزوری در کمزوری کے کیا کیا مراحل آئے ذرا ان مرحلوں کو دماغ میں لا اور پھر دو سال کی مدت تک تجھے جو دودھ پلایا اور اس دوران تیرے کیا کیا ناز نخرے اس نے اٹھائے اور تجھے پالا۔ ساتھ ساتھ باپ کا کردار بھی ذہن میں رکھ اور نتیجہ یہی نکلے گا کہ میرا شکر بھی کر او اپنے ماں باپ کا بھی شکر گزار بن کر زندگی گزار۔ یاد رکھ! میرے پاس تو آنے والا ہے سورۃ لقمان کے بعد اگلی سورت کا نام ’’السجدہ‘‘ ہے، اس کے اندر اللہ تعالی نے کائنات کی تخلیق اور انسان کی تخلیق کے مراحل کو بیان فرمایا۔ پھر اسے آگاہ کیا کہ عنقریب ملک الموت تجھے میرے پاس لانے والا ہے جنہوں نے مجھے بھلا دیا میں اسے بھلا دوں گا اور جہنم میں پھینک دوں گا۔ اور جس نے میری آیات یعنی اس قرآن کو مانا اور جب میری یاد آئی تو بے ساختہ سجدے میں گر گیا۔ رات کو اس نے بستر کو چھوڑا اپنے پہلو کو جو بستر سے جدا نہ ہونا چاہتا تھا اس سے جدا کیا۔ مجھ سے ڈرتے ہوئے اور میرے دیدار اور جنت کی تمنا کرتے ہوئے مجھے پکارنے لگا۔ حقیقتاً یہ ہے کہ ایسے شخص کو جو میں عطا کرنے والا ہوں اور جو نعمتیں میں نے چھپا کر رکھی ہیں کہ جس سے آنکھیں ٹھنڈی ہوجاتیں ان نعمتوں کو کوئی شخص نہیں جانتا، نیک عمل کرنے والوں کو یہ بدلہ دیا جائے گا۔ جی ہاں! صحیح مسلم میں ہے اللہ کے رسولؐ نے فرمایا کہ سمندر میں انگلی ڈبو کر نکالی جائے تو یہ ساری دنیا ہے اور جنت سارا سمندر ہے۔ اللہ اللہ! اس سے دنیا کی حقارت اور آخرت کی زندگی کی عظمت کا اندازہ کرلیا چاہیے۔ مبارک ہیں وہ لوگ جو اس اگلی دنیا کی تیاری کے لئے ذوق شوق کے ساتھ رمضان کے آخری عشرے میں تراویح اعتکاف اور قرآن کے ساتھ دل لگا رہے ہیں۔ یہ ساری محنت انہیں مبارک ہو۔ اللہ تعالی ہم سب کو فردوس والا جنت عطا فرمائے۔ (آمین)