”دِلوں کا کھوٹ اور بے حسی کی چادر“

انسانی فطرت میں یہ جذبہ بدرجہ اتم موجود ہوتا ہے، اسے جو شخص پسند نہ ہو یا جو اس کے مفادات پر پورا نہ اترتا ہو تو انسان ایسے شخص کی خامیوں کو کرید کرید کر تلاش کرتا رہتا ہے، چاہے وہ شخص بڑی سے بڑی قربانی بھی دے دے یا شدید اذیتوں سے گزر رہا ہو، مدمقابل شخص کے دل کا کھوٹ قائم رہتا ہے۔ جبکہ دوسری جانب انسان جسے پسند کرتا ہے، اس کی خامیوں کو ایک دم نظرانداز کرکے اسے فرشتہ سمجھنے لگتا ہے۔ دونوں رویئے ہی انتہا پسندانہ ہیں جوکہ درست نہیں۔ حالانکہ انسان خوبیوں اور خامیوں کا مجموعہ ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ کسی میں خوبیاں زیادہ ہوتی ہیں اور کسی میں خامیوں کی بہتات۔ 

آجکل پاکستان میں جو صورت حال چل رہی ہے، وہ ناصرف افسوس ناک ہے بلکہ اخلاقی لحاظ سے بھی درست نہیں۔ جب پاکستان کے منتخب وزیراعظم جوکہ گزشتہ دنوں انتہائی سیریس آپریشن کے تکلیف دہ مرحلے سے گزر رہے ہیں تو ایسے میں ان کے مخالفین کا رویہ ناصرف بچگانہ بلکہ افسوس ناک بھی ہے۔ اگر ہم عام حالات میں بھی دیکھیں تو اگر کوئی شخص بستر علالت پر ہو تو اس میں تمام مفادات اور اختلافات پس پشت رکھ کر ہر ایسے عمل سے پرہیز کیا جاتا ہے جس سے بیمار شخص کی حالت پر منفی اثرات مرتب ہوں، لیکن اس کے برعکس یہاں صورت حال یہ ہے کہ ملک کے وزیراعظم پر بستر علالت پر بھی ناصرف بے جا تنقید کی گئی اور کی جارہی ہے بلکہ بے حسی کی انتہا تو یہ ہے کہ مفادات کے پردوں کے پیچھے کھڑے ہمارے قومی رہنما یہاں تک کہنے سے بھی باز نہیں آتے کہ وزیراعظم کو کوئی بیماری تھی ہی نہیں تو آپریشن ہوا ہی نہیں۔ ایسے میں اگر دلوں کے کھوٹ دور کرکے مفادات پس پشت ڈال کر دیکھا جائے تو حقیقت کی نظر واضح طور پر ایک تندرست اور بیمار انسان کی ظاہری حالت بتا دیتی ہے کہ وہ بیماری کاٹ چکا ہے یا تکلیف میں ہے۔ بیماری ایک ایسی آزمائش ہے جو کبھی بھی کسی پر بھی آسکتی ہے۔ پھر نجانے کیوں ہم غور و فکر نہیں کرتے اور اللہ کے خوف سے کیوں نہیں کانپتے۔
حقیقت یہ ہے کہ جو تکلیف ایک بیمار انسان اٹھاتا ہے، اس سے کہیں زیادہ اس کے اہل خانہ لمحہ لمحہ اٹھا رہے ہوتے ہیں۔ اگر اس طرف ہم دھیان دیں تو کبھی بھی ایسی صورت حال درپیش نہ ہو جس کا آج پاکستانیوں کو سامنا ہے، جو کبھی آپریشن نہ ہونے اور بحیثیت انسان عید کی شاپنگ کرنے پر جناب وزیراعظم کے مخالفین تمام توانائیوں سے واویلا کررہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم اخلاقی طور طریقوں سے بالکل عاری ہوتے جارہے ہیں، تبھی جب ہمارے اوپر آزمائش آتی ہے تو ہم انسانیت کے تقاضے پورے چاہتے ہیں جبکہ دوسروں کے لئے یہ سبق بھول جاتے ہیں۔ اس لئے دوسروں کی تکلیف کو اپنے اوپر رکھ کر دیکھیں تو ہم کبھی کسی کی دل آزاری کا موجب نہ بنیں۔ فرق ہے تو دلوں کی صفائی کا جو ہماری ہونا ضروری ہے۔
ایک دفعہ نبی پاک محفل میں تشریف فرما تھے کہ ایک صحابیؓ محفل میں آئے تو آپ نے فرمایا یہ جنتی ہے۔ دوسرے دن پھر انہی صحابیؓ کے بارے میں یہی کہا، جبکہ تیسرے دن پھر وہی صحابیؓ جب محفل میں آئے تو آپ نے پھر کہا یہ جنتی ہے۔ حضرت عمرؓ کو بڑا تجسس ہوا کہ ان میں یقینا کوئی خاص خوبی ہوگی جو اللہ کے نبی تین دن متواتر جنت کی بشارت دیتا ہے۔ آپؓ ان صحابیؓ کے گھر گئے، بہانے سے کہا کہ میرے والد سے کسی بات پر جھگڑا ہوا ہے، آپ مجھے دوچار دن اپنے پاس رکھ لیں۔ جنتی صحابیؓ نے اجازت دے دی۔ رات کو سونے کے وقت حضرت عمرؓ نے چھپ کر دیکھنے کی کوشش کی کہ شاید جنتی صحابی پوری رات کرتے ہوں گے، لیکن انہوں نے دیکھا کہ وہ تو سو گئے ہیں۔ بس تھوڑی تھوڑی دیر بعد اللہ اکبر کہہ کر کروٹ لے لیتے۔ حضرت عمرؓ نے تین دن متواتر یہی دیکھا۔
آخر آپؓ سے رہا نہ گیا اور آپؓ نے جنت کی بشارت پانے والے صحابیؓ سے پوچھ ہی لیا کہ آپ میں ایسی کون سی بات ہے جو اللہ کا رسول آپ کو تین دن متواتر جنت کی بشارت دیتے ہیں۔ صحابی نے فرمایا کوئی خاص بات نہیں، بس یہ ضرور کرتا ہوں کہ رات کو سونے سے پہلے سب کو معاف کرکے سوتا ہوں اور دل کو صاف رکھتا ہوں۔ کوئی حسد، بغض اور کینہ کو دل میں نہیں رکھتا۔
آج ہمارے دل حسد، بغض اور کینہ سے بھرے پڑے ہیں، ہم حسد کی آگ میں گھروں کے گھر تباہ کر دیتے ہیں اور بغض اور کینہ سے ہمیں دوسروں کی اچھائیاں بھی برائیں نظر آنے لگتی ہیں۔ آج ہمیں ضرورت ہے تو دلوں کی صفائی کی، مفادات سے ہٹ کر حق اور سچ کہنے کی۔

ای پیپر دی نیشن