گندم کی فکر کریں۔ یہ ملکی مسئلہ بھی اہم ہے

پانامہ لیکس کا معاملہ ہو یا پھر قومی بجٹ پیش ہو رہا ہو۔ افغانستان کےساتھ فائرنگ کا تبادلہ ہو رہا ہو یا ایران، بھارت اور افغانستان کا اتحاد ہونے جا رہا ہو ہمیں تمام معاملات کو ملکی خارجہ پالیسی کے حوالہ سے دیکھنے کی ضرورت ہے ہم کب سیکھیں گے کہ ہر معاملہ ہمارے ملک کی سلامتی اور ہماری خطہ میں پوزیشن کے حوالہ سے بہت اہم ہے۔ جب ہم ان معاملات پر درست رویہ اختیار نہیں کرتے اور اپوزیشن اور حکومت میں ہر وقت جھگڑے کی کیفیت چل رہی ہو تو بہت سے اور معاملات نظروں سے اور دماغ سے اوجھل ہو رہے ہیں۔ مثال کے طور پر 1997ءمیں بے نظیر حکومت کو گرانےکی میاں محمد نواز شریف کی کوشش کامیاب تو رہی مگر اس کش مکش کے سال میں ملک گندم کے سنگین بحران کا شکار ہو گیا اور یہ کمی کا قلت کا بحران تھا کیونکہ ملک میں گندم نہیں تھی اور محترم میاں صاحب نے بے نظیر صاحبہ کو اپنی سیاسی جدوجہد کی طرف متوجہ کر کے انکو یہ بھلا ہی دیا کہ ملک میں گندم نہیں ہے اور اسطرح ملک گندم اور آٹے کے بحران میں مبتلا ہوا جس سے کراچی میں 25 عورتیں آٹے کی لائنوں میں بھگدڑ سے اور پشاور میں 7 افراد آٹے کی لائنوں میں ہلاک ہو گئے بعدازاں میاں صاحب کی حکومت میں اس کمی کو کامیابی سے دور کر لیا گیا۔ آج بھی ہم کچھ ایسی ہی پوزیشن سے دست و پا ہیں۔گندم اضافی ہو تو ملک کی غذائی تحفظ کی اچھی صورتحال کا ضامن ہوتی ہے مگر اسکا ضیاع، گوداموں میں گل سڑ جانا اور اچھی برآمدی پالیسی کا نہ ہونا کوئی اچھی بات نہیں ہے۔ پنجاب کی حکومت نے میاں شہباز شریف کے وژن کے مطابق اس سال رمضان المبارک میں بھی آٹے پر تقریباً 4 ارب روپے کی سبسڈی دی ہے جسے DCO حضرات اور محکمہ خوراک کے افسران عوام تک پہنچا رہے ہیں اور DCO لاہور کیپٹن عثمان، ڈائریکٹر خوراک آصف بلال بھٹی اور سیکرٹری خوراک پنجاب ڈاکٹر پرویز احمد خاں بڑے احسن طریقہ سے دیکھ رہے ہیں جبکہ وزیر خوراک بلال یٰسین اور ان کی ٹیم بھی انتہائی متحرک طریقہ سے اس سارے عمل کی نگرانی کر رہے ہیں مگر جو چیز نظرانداز ہو رہی ہے وہ اضافی گندم۔ گزشتہ برس بھی اس پر محترم ر¶ف کلاسرا نے کالم لکھا اور میں نے بھی کوشش کی کہ گندم کی برآمد پر ٹھوس کام ہو۔ عالمی مارکیٹ میں گندم کا نرخ 768/- روپے یا 800/- روپے فی من جب کہ ہم اپنی خریداری بھی 1300/- روپے فی من سے کرتے ہیں۔ اس کا ایک حل تو ایک مافیا نے دیا جس کے مطابق اس مافیا کو سستی گندم دینے کے ساتھ ساتھ برآمد کےلئے 90 سے 120 ڈالر فی ٹن Rebate بھی دیا جائے اور وہ لیا بھی گیا مگر محترم اسحاق ڈار صاحب اور وزیراعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف سے گزارش ہے کہ وہ اس بات کا نوٹس لیں کہ کون اس جعلی برآمد کے پیچھے ہے کہ جس میں ایک طرف تو گندم یہاں ہی فروخت کر کے اس کی برآمد کا سامان کر کے Rebate بھی FBR سے حاصل کر لیا جاتا ہے۔ اس جعلی ایکسپورٹ کی وجہ سے افغانستان کی ہماری روایتی 10 لاکھ ٹن آٹے کی مارکیٹ ہم سے چھن چکی اور اسی وجہ سے 67 فی صد فلور ملز بند بھی ہو گئی ہیں کہ جن کا دارومدار افغانستان پر تھا۔ موجودہ بحرانی وقت میں حکومت توجہ کرے اور محترم اسحاق ڈار صاحب دو کام کریں ایک تو حکومت براہ راست TCP کے ذریعے کم از کم 15 لاکھ ٹن گندم کی برآمد کے عالمی ٹینڈر جاری کرے اور اس گندم کو جس بھی نرخ پر برآمد ممکن ہو کر دیا جائے اور دوسرا یہ ہے کہ افغانستان کی مارکیٹ کو دوبارہ حاصل کرنے کےلئے درج ذیل اقدامات اٹھائے جائیں۔ -1 آٹا ایکسپورٹ کرنے کے لیے گندم کا نرخ 1000/- روپے فی من فوری طور پر کر دیا جائے اور یہ گندم سب فلور ملوں کے لیے ہو اور سندھ، بلوچستان، پنجاب اور KPK کی فلور ملوں کی ڈیوٹی لگائی جائے کہ وہ افغانستان آٹا بھیج کر ایک تو اضافی گندم کم کریں اور دوسرا پاکستان کی کھوئی ہوئی مارکیٹ دوبارہ حاصل کریں۔ -2 افغانستان کے لیے پولیٹیکل ایجنٹس کے لگائے گئے فی بوری ٹیکس کو فوری طور پر ختم کیا جائے یا کم کیا جائے۔ -3 90 ڈالر یا 120 ڈالر کی رقم کو گندم کے Rate پر عمومی طور پر کمی کرنے کے لئے استعمال کیا جائے تاکہ ملکی عوام بھی سستے آٹے کے فوائد سے مستفید ہو سکیں۔ یہ وہ اہم مسئلہ تھا جس کی نشاندہی کرنا ہمارا قومی اور اولین فریضہ ہے ےکہ اس وقت چاروں صوبوں اور پاسکو کے پاس کل ملا کر ایک کروڑ ٹن سے زائد گندم موجود ہے جبکہ ضرورت 50 لاکھ ٹن سے زائد نہیں۔ حکومتی زرعی پیکیج اپنی جگہ درست مگر گندم کا خریداری نرخ عالمی مارکیٹ کے مطابق نہ ہوا تو یہ مسئلہ وہیں موجود رہے گا۔ لہٰذا پانامہ لیکس کو سیاست کی نذر کرتے ہوئے یہ مت بھولیں کہ حکومت کو اور بھی بہت کام کرنے ہیں اور جو مسئلہ ہم نے پیش کیا ہے مسلسل نظرانداز ہوتا ہے تو اس سال حکومت کو گندم کے پڑے رہنے سے تقریباً 100 ارب سے زائد کا نقصان متوقع ہے۔

ای پیپر دی نیشن