وطن کی فکر ناداں

جمہوریت اور سیاست لازم و ملزوم ہیں اسی طرح سرمایہ کاری اور سازگار ماحول ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ جمہوری فضا میں سیاسی سرگرمیوں کے دلدادہ افراد کو اس بات کا خیال رکھنا ہوگا کہ حالات اتنے خراب نہ ہوں کہ سازشوں اور مخالفتوں کا دائرہ پھیلتا اور کاروباری ماحول سکڑتا چلا جائے۔ ملک کے موجودہ تناظر میں کاروباری طبقہ کاروبار بڑھانا اور پھیلانا چاہتا ہے۔ اس کے لیے سازگار ماحول کی اشد ضرورت ہے۔ حکومت کی کاروبار دوست پالیسیاں۔ سیاست دانوں کی پیدا کردہ ہم آہنگی اور کاروباری طبقہ کی یکسوئی اور محنت سے اقتصادی و معاشی سرگرمیاں فروغ پاتی ہیں۔ برآمدات میں اضافہ اور روزگار کے مواقع بڑھتے ہیں۔ بد قسمتی سے پاکستان میں سابقہ حکمرانوں نے کاروبا ر بڑھانے اور خوشحالی لانے کے تقاضوں کو در خور اعتنا نہیں سمجھا۔ دہشت گردوں کا راج اور امن ناپید رہا۔ بجلی کا بحران ہر نئے سورج کے ساتھ شدید تر ہوتا رہا لیکن حکمرانوں نے بجلی پیدا کرنے کے کسی ایک منصوبہ کی بنیاد تک نہ رکھی۔ 2013ء کا الیکشن کاروباری طبقہ اور عوام کی امیدوں کی بر آوری کا پیغامبر بنا۔ میاں محمد نواز شریف کی حکومت کے قیام سے محرومیوں کے مداوا کی تدابیر اور جد و جہد کا آغاز ہوا۔ امن وامان اس سلسلے میں سر فہرست تھا۔ پاک فوج نے ضرب عضب اور رد الفساد اپریشن کے ذریعے دہشت گردوں کی کمر توڑی۔ ان کے ٹھکانے تہس نہس کئے۔ ان کی اسلحہ ساز فیکٹریاں تباہ و برباد کر دی گئیں۔ عوام نے سکھ کا سانس لیا۔ بیرونی کاروباری افراد پاکستان میں آنے جانے لگے۔ کراچی پاکستان کی معاشی سرگرمیوں کے لیے شاہ رگ ہے۔ را کے ایجنٹوں نے شاہ رگ کو لہولہان کر دیا تھا۔ لندن میں مقیم را کے چیف ایجنٹ کے ایک اشارے پر مارکیٹوں کو بند اور سڑکوں کو معصوم خون سے رنگین کر دیا جاتا تھا۔ کراچی بندرگاہ پر تجارتی سامان لانے اور لے جانے والے ٹرکوں کو دن دیہاڑے لوٹ لیا جاتا کوئی پوچھنے والا نہ تھا۔ موجودہ حکومت کے فیصلہ کے نتیجہ میں رینجر ز اپریشن میں بھتہ خوروں اور ٹارگٹ کلر ز کو چن چن کر ختم کر دیا گیا۔ باقی ماندہ بھاگنے پر مجبور ہو گئے۔ الحمد اللہ کراچی کی مارکیٹوں میں رونقیں بحال ہو گئیں۔

سٹاک مارکیٹ تیزی سے آگے بڑھنے لگی۔ بد قسمتی سے سیاست دانوں کے متصادم رویوںاور منفی سرگرمیوں سے کاروباری ماحول کو شدید دھچکا لگا ہے۔ سٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاروں کے اربوں روپے ڈوب چکے ہیں۔ ملک میں جاری ترقیاتی منصوبوں میں سست روی پیدا ہونے کا اندیشہ پیدا ہونے لگا ہے۔ یہی وہ مقصد تھا جس کے لیے نریندر مودی عرصہ سے پاپڑ بیل اور بھاگ دوڑ کر رہا ہے۔ پاکستان کی خوشحالی کے پیغامبر سی پیک کو کسی طور مکمل نہیں ہونے دینا چاہتا۔ گوادر بندرہ گاہ کو ناکام بنانے کے لیے مودی ملکوں ملکوں گیا لیکن اسے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا اندروں ملک سے بعض سیاست دانوں کی سرگرمیاں شعوری یا لا شعوری طور پر مودی سرکار کی آلہ کار بنی ہوئی ہیں۔ امریکہ کی بھارت نوازی ڈھکی چھپی نہ ہے۔ حالیہ دنوں میں ٹرمپ مودی جپھیاں پاکستان کے ہر فرد کے لیے تشویش کا باعث بنی ہیں۔ عقل و شعور سے دور ٹرمپ اور چالاک مودی کی ملاقاتیں اور جپھیاں کشمیر میں ہلاکتوں اور پاکستانی علاقوں میں فائرنگ کے واقعات میں اضافہ کا باعث بن سکتی ہیں۔ ماحول کلائوڈی ہوچکا ہے، جب گہرے بادل سر پر کھڑے ہوں تو ہر شخص گھر کے درو دیوار اور چھتوں کی خبر لیتا ہے۔ ہمارے گھر کے ذمہ داران ہمارے سیاست دانوں کو ایسے محسوس ہوتا ہے کہ خطرے کے بادل نظر نہیں آتے یا انہیں اس بات کی پرواہ نہیں , اتحاد واتفاق پیدا کرکے دشمن کی چالوں کا توڑ کرنے اور ملک میں کاروبار کے لیے حالات سنوارنے کی بجائے حکومت کو گرانے اور سی پیک سمیت خوشحالی منصوبے بند کرانے میں اپنی توانائیاں اور صلاحیتیں برباد کر رہے ہیں۔ کسی کو فکر نہیں کہ ٹرمپ مودی گٹھ جوڑ کیا رنگ لانے اور دکھانے کی تیاریوں میں ہے۔ کوئی سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کرتا کہ سابقہ حکمرانوں کی تغافل شعاریوں اور اندرون ملک بھارتی وظیفہ خواروں کی مشترکہ سوچ سے پاکستان میں خوشحالی کے ضامن کالا باغ ْ ڈیم کو متنازعہ قرار دلوا کر ختم کیوں کیا گیا۔ کوئی سیاست دان مستقبل میں جھانک کر یہ نہیں بتاتا کہ مودی کالا باغ ڈیم کو ڈکارنے کے بعد پاکستان کے پانیوں پر منظم اور بڑی ڈاکہ زنی سے گریز نہیں کر ے گا۔ اس پس منظر میں اہل سیاست سے درخواست ہے کہ چار سال کافی ادھیڑ بن کر لی۔ مہینوں پر محیط اسلام آباد میں کنٹینر دھرنا دے لیا۔ دارلحکومت پر قبضہ کی کوشش کر دیکھی۔ پانامہ کیس کی سماعت کے دوران ہر روز و ز یر اعظم پاکستان اور ان کے خاندان پر کافی لعن طعن کر لی۔ اب ملک کے استحکام کی فکر کریں۔ عوام کی روزی روٹی کی طرف دھیان دیں۔ کاروبار بڑھانے کے لیے حالات سازگار بنائیں۔ سب سے بڑی بات یہ کہ دشمن کی چالوں اور تیاریوں کے بارے غور و فکر کریں اور قومی سطح پر مشترکہ و متحدہ لائحہ بنائیں۔

ای پیپر دی نیشن