برصغیرکی تاریخ میں خواتین کا کردار کم کم نظر آتا ہے ۔ التمش کی بیٹی رضیہ سلطانہ ، جھانسی کی رانی یا ریاست اودھ کی بیگمات جرات کا مظاہرہ کرتی نظر آئیں گی ۔ مغلیہ دو رمیں اکبر کی بیوی جودہ بائی ، جہانگیر کے ساتھ انارکلی ، شاہ جہاں کی بیوی ممتاز بیگم اور اورنگ زیب کی بیٹی زبیدہ خانم کا کہیں کہیں تذکرہ ملے گا مگر جب ہم تحریک آزادی کے حوالے سے نظر دوڑاتے ہیں تو بیشمار خواتین مصروف عمل نظر آئیں گی ۔
خواتین میں تحریک آزادی کا آغاز علی برادران کی باہمت اور عالی صفات والدہ آبادی بیگم جو کہ بی اماں کے لقب سے مشہور ہوئیں ۔ آپ اپنے بیٹوں کی گرفتاری کے بعد خود خارزار سیاست میں اتر آئیں یہ واقعہ تب کا ہے جب خواتین کا گھر سے نکلنا اور متروک اور معیوب تصور کیا جاتا تھا۔
بی اماں نے اپنے ساتھ اپنی بہو مولانا محمد علی جوہر کی بیگم کو ساتھ لے کر میدان کارزار میں قدم رکھا ۔ انکی دن رات کاوشوں سے پورے برصغیر کی خواتین میں بیداری کی ایک نئی لہر نے جنم لیا ۔ بڑے بڑے نوابین اور پڑھے لکھے زعماء کی بیگمات نے بی اماں کی پکار پر تحریک خلافت میں حصہ لیا بعد میں وہی خواتین مسلم لیگ کا اثاثہ ثابت ہوئیں ۔ یاد رہے حضرت قائداعظم نے مسلم لیگ میںخواتین کی تنظیم کا کام بھی بیگم محمد علی جوہر کے سپرد کیا ۔
جہاں تک مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کا تعلق ہے ۔ آپ کے والدین بچپن میں ہی وفات پا چکے تھے ۔ آپ کی تعلیم و تربیت کا فریضہ آپ کے عظیم بھائی محمدعلی جناح کے ذمہ ٹھہرا ۔ فاطمہ جناح اپنے گھر میں سب سے زیادہ بھائی محمد علی جناح کے قریب رہیں لہذا اصول پسندی ، نفاست اور سچائی کوٹ کوٹ کر آپکے مزاج میں بھری تھی ۔ اگر یہ کہا جائے کہ آپ حضرت قائداعظم کا پرتوتھیں تو غلط نہ ہوگا۔
بقول امام صحافت مجید نظامی کہ اگر محترمہ فاطمہ جناح کی سیاسی مسافرت میںمعاون اور مددگار نہ ہوتیں تو شاید حضرت قائداعظم کامیابیوں کے تمام مراحل اکیلے طے نہ کر پاتے ۔چونکہ آپکی صحت اتنے کٹھن سفر کی متحمل نہیں ہوسکتی تھی ۔ محترمہ اپنی زندگی کو بھول کر جس سنجیدگی سے اپنے عظیم بھائی کی زندگی میں شامل تھیں تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ محترمہ نے ساری زندگی اپنے بارے میں کچھ بھی نہیں سوچا۔ تمام زندگی کو اپنے عظیم بھائی اور اسکے مشن کیلئے وقف رکھا ۔
قائداعظم کی رحلت کے بعد کسی سرکاری عہدے کی خواہش ظاہر نہ کی تاہم جب حضرت قائد کے بنائے ہوئے ملک میں انکے اصول اور اسلوب کو آمریت پامال کررہی تھی تو محترمہ ضعیف العمری کے باوجود کشور حسین کی بقاء اور اصولوں کی پاسداری کی جنگ لڑنے کیلئے میدان عمل میں اتر آئیں ۔
اس سفاک ٹولے کے مقابلے کا فیصلہ کیا جس کا سامنا کرنے کی کسی مرد میں ہمت نہ تھی ۔ آپ الیکشن میں دھاندلی کے باعث جیت تو نہ سکیں مگر وہ ٹولہ مادر ملت سے مقابلے کی لعنت کے باعث قیامت تک پاکستان کے عوام کی نظروں میں ملعون رہے گا۔ آپ کا شمار حسینی روایات کے امین اور علم داروں کی فہرست میں جگمگاتا رہے گا جو آنے والی نسلوں کیلئے سنگ میل اور مینار نور کی حیثیت رکھتا ہے ۔
محترمہ فاطمہ جناح 31جولائی 1894ء کو کراچی کے اس گھر میں پیدا ہوئیں جہاں 25 دسمبر 1876 کو محمد علی جناح نے جنم لیا ۔ ۔آپ کی ابتدائی تعلیم کراچی میں ہوئی ۔ بچپن میں والدین کا سایہ سرسے اٹھ گیا تو بڑے بھائی محمد علی جناح جو بمبئی میں وکالت کے پیشے سے منسلک تھے کے پاس تشریف لے آئیں ۔ محمد علی جناح نے باندرہ کانوونٹ سکول میں داخل کرایا محترمہ نے یہاں سے میٹرک پاس کیا تو بولڈنگ ہائوس چھوڑکر قائداعظم کے گھر تشریف لے گئیں ۔
محترمہ نے پرائیویٹ طالبہ کی حیثیت سے سینئر کیمرج کا امتحان 1913ء میں پاس کیا کچھ عرصہ بعد کلکتہ کے احمد ڈینٹل کالج میں داخلہ لیکر تعلیم حاصل کی جو 1922ء میں مکمل ہوئی ۔ 1923ء میں بمبئی ہی میں ڈینٹل کلینک چلانا شروع کردیا اس دوران بھائی سے قربت میں کمی نہ رہی۔ 1929ء کی قائد کی رفیق حیات محترمہ مریم جناح علالت کے باعث خالق حقیقی سے جاملیں تو حضرت قائدپر انکی موت کا گہرا اثر دیکھتے ہوئے محترمہ فاطمہ جناح نے اپنے کلینک کو خیر آباد کہہ دیا اور کل وقتی گھر رہنے کا فیصلہ کیا۔ بھائی کی سہولت کی خاطر گھر کی ذمہ داری سنبھالی۔ 1930 میں جب سر محمد شفیع کے ساتھ دوسرے مسلم لیگیوں نے مسلم لیگ پنجاب کو علیحدہ کیا تو حضرت قائداعظم خفا ہو کر لندن چلے گئے محترمہ فاطمہ جناح بھی اپنے بھائی کے ہمراہ تھیں جہاں طویل قیام رہا ۔1933ء میں قائداعظم نے واپسی کا پروگرام بنایا تو بہن ساتھ آگئیں۔ محترمہ نے تحریک پاکستان میں مسلم خواتین کی تنظیم کو فعال اور متحرک بنانے کیلئے سخت محنت اور جانفشانی سے کام کیا ۔
برصغیر کے کونے کونے میں خواتین کو آزادی و بیداری کا ایسا در س دیا کہ دیکھتے ہی دیکھتے ہر ضلع ہر صوبہ میں مسلم لیگ اور تحریک پاکستان میں خواتین شامل ہوتی چلی گئیں ۔ قائداعظم کے ساتھ مادر ملت کی جستجو ہی تھی کہ 1946ء کے انتخابات میں مسلم خواتین نے بڑھ چڑھ کر ووٹ کے حق کا استعمال کیا ۔ خاص طور پر 1947ء صوبہ سرحد کے ریفرنڈم میں مسلم خواتین نے جونمایاں کردار ادا کیا وہ ہماری تاریخ کا روشن اور درخشاں باب ہے ۔
محترمہ فاطمہ جناح مشن سے لگن ، کردارکی پختگی اورجاذب النظر شخصیت کی بدولت خواتین آپ کی طرف کھنچی چلی آئیں ۔ قیام پاکستان کے عمل میں اتنی بڑی تعداد میں مسلم خواتین کا مردوں کے شانہ بشانہ متحرک ہونا مادرملت کی شخصیت کا کرشمہ تھا ۔
قیام پاکستان کے بعد حضرت قائداعظم نے گورنر جنرل کا منصب سنبھالا تو آپ کو خاتون اول کا مقام دیا گیا۔ حضرت قائد کی وفات کے بعد عملی سیاست سے کنارہ کشی اختیارکرلی تاہم سماجی اور فلاحی کاموں میں مصروف رہیں ۔ گاہے بگاہے حکومتی پالیسیوں پر اظہار خیال بھی کیا ۔ تعلیم ، اقتصادی امور کی نشاندہی فرماتی رہیں ۔ ابتدائی بڑھتی ہوئی امریکی مداخلت پر غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے تنبیہ کی کہ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو گورے ایک بار پھر قائداعظم کے ملک کو اپنا غلام بنالیں گے۔ آپ کی دوراندیش نظروں کے اندازے درست نکلے آج ہم اس انجام کو پہنچ چکے ہیں۔ 1964ء میں جابر ایوب خان کو گل کھلانے کیلئے میدان خالی نہ چھوڑنے کا فیصلہ تاریخ ساز بھی تھا اور جرأت مندانہ بھی۔
حزب اختلاف کے اصرار پر جس شان اور جرأت کے ساتھ میدان میں اتریں کہ آمروں کے پائوں اکھاڑ دیے۔ ایوب خان کو الیکشن جیتنے کے لئے سو غیر آئینی ، غیر اخلاقی جتن کرنے پڑے ۔ یقینا وہ دن ہماری تاریخ کا سیاہ دن تھا۔ لوگوں کی قائداعظم اور مادرملت سے محبت عقیدت کی حد تک بڑھ چکی تھی بلکہ کچھ لوگ تو اسے ایمان کے درجے میں شامل کرتے تھے ۔ راولپنڈی کے ایک بزرگ جو 1964ء میں بی ڈی ممبر تھے محترمہ فاطمہ جناح کو ووٹ دینے کے عمل کو آخرت کی نجات کا پروانہ تصور کرتے تھے ۔
مادر ملت محترمہ فاطمہ کی زندگی کا مطالعہ ہر پاکستانی کے لئے مشعل راہ ثابت ہوگا ۔ قومی معاملات کے کمزور موقف پر ہمت اور طاقت کا باعث بنے گا کیونکہ بلند کردار ہی اعلی مقاصد کے حصول کا ذریعہ ہے ۔ آپ ۹ جولائی 1967ء کو کراچی میں آسودہ خاک ہو کر اپنے مشفق اور عظیم بھائی کے پہلو میں سفر آخرت پر گامزن ہوگــئی ۔ انا للہ وانا علیہ راجعون