جنرل باجوہ صاحب ایجنسیوں کی نچلی سطحوں کی اصلاح

Jul 09, 2017

وطن عزیز میں جاری سی پیک جیسے اقتصادی عالمی منصوبے کی عمل پذیری نے من حیث القوم ہمیں اک بہت بڑے امتحان میں ڈال رکھا ہے یہ ایک انوکھا امتحان ہے کہ اس کے ہر پرچے کے کے نتائج ساتھ ساتھ نکلتے جاتے ہیں اور اس امتحان کے ہر ایک کینڈیڈیٹ کو آئندہ پرچے میں مزید بہتر تیاری کے ساتھ بیٹھنے کے جانفزا مواقع حاصل رہتے ہیں۔ اس امتحان کے کچھ پرچے غیر ممالک میں بھی تیار کیے جار ہے ہیں بہر طور تاحال وطن عزیز ایک کونے سے دوسرے کونے تک امتحانی حال بنا ہوا ہے۔ ایک ایسا امتحان کہ جس میں دنیا کے ہر مضمون کا کوئی نہ کوئی پرچہ ضرور شامل ہے اور جس کے پریکٹیکلز بھی شروع ہوچکے ہیں۔ شنید ہے کہ پریکٹیکل لینے والے ملکی و غیر ملکی ممتحنوں نے ہر ممکن ہر کینڈیڈیٹ کو زچ کرنے کا پورا بندوبست کر رکھا ہے مگر الحمداللہ اب تک کے نتائج مطابق سی پیک ایگزام کا ہر ہر امیدوار اپنی مکمل تیاری کے امتحان اور پریکٹیکل میں وہ وہ جوہر دکھا رہا ہے کہ اس امتحان کو مشکل ترین بنانے کی کوشش کرنے والوں کے لئے جاری امتحان خود ایک ایسا مشکل امتحان بنتا جا رہا ہے کہ جس نے ممتحنوں کے دماغ چکراکر رکھ دیے ہیں۔ اس امتحان کے اختیاری مضامین ہیں ،سازش ، ڈس انفارمیشن، رکاوٹیں۔ جب کہ لازمی مضامین ہیں ، دہشت گردی اور دھماکے ، مشکل ترین کام امتحان ہونے کے باوجود یہ پاکستانی قوم کا ہی طرہ امتیاز ہے کہ اس نے نہایت ذوق و شوق اعتما د اور مکمل تیاری کے ساتھ بڑھ چڑھ کر اس میں شرکت کر رکھی ہے۔ تاحال ساتھ ساتھ نکلتے جانے والے نتائج کے مطابق تمام امیدواروں نے نہایت خوش اسلوبی اور اطمنان کے ساتھ قوم کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے جب کہ امتحان کو مشکل ترین بنانے والے کم و بیش ریٹائرڈ پروفیسرز مینٹل ریٹائرڈ اور کھسیانی بلی کھمبا نوچے کی کھلی مثال بن چکے ہیں ۔
پاکستانی مسلح افواج کی فوجی اکیڈمیز کے زیرانتظام جاری اس سی پیک امتحان میں بڑی تیز رفتاری کے ساتھ امیدواروں کی استطاعت کار اور تعداد میں آئے دن اضافہ ہوتے دیکھ کر اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ پاکستانی مسلح افواج نے اپنے امیدواروں کو سی پیک امتحان میں ورلڈ میں ٹاپ کرنے کا اہل بنادیا ہے۔ قوم بخوبی آگاہ ہے کہ کس طرح مسلح افواج اور اس کے امیدواروں نے سی پیک امتحان کے نتائج کے آڑے لائے جانے والی گاہے بگاہے رکاوٹوں کو تاخت و تاراج ممتحنوں کو خود کٹھن امتحان میں جھونک رکھا ہے ۔ چائنہ تاحال اک غیر جانبدار مبصر کی طرح نہایت اطمنان کے ساتھ اس سارے عمل کا جائزہ لیے جا رہا ہے کیوں کہ اک کثیر تعداد میں چائنہ کے امیدوار بھی سی پیک امتحان میں پاکستانی امیدواروں کے شانہ بشانہ موجود ہیں چنانچہ بہت جلد قوم سی پیک کے وسیع تر اور دیرپا نتائج و ثمرات سے بہرہ مند ہونا شروع کردے گی اس سارے عمل میں سہرا پاکستانی مسلح افواج کے سرپر ہے کہ جس نے نہایت خاموشی اور انہماک کے ساتھ متذکرہ امتحان کے نوع کی سازشوں کا سامنا اپنی بہترین بڑھتی ہوئی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کی بنا پر کیا اور یہ عمل جاری ہے اور فوج کے عزم میں روز افزوں اضافہ پر پاکستانی قوم شاداں و فرحاں ہے۔ جس کا اظہار وہ مختلف پلیٹ فارم اور مختلف میڈیاز کے ذریعے اب کھلے عام کرنے لگی ہے اور یوں محسوس ہونے لگا ہے کہ اب قوم ہر سطح پر مسلح افواج کو سرگرم دیکھنا چاہتی ہے خد انخواستہ مارشل لا کی صورت میں نہیں بلکہ 70 برس سے لانیحل شہری دیہی اقتصادی اختیارات سے تجاوز سرکاری سرگرمیوں کے گرفت میں نہ آنے والے کارندوں ، قومی خزانے کی بے رحمانہ لوٹ مار ، سیاست کی آڑ میں عوام کو بیوقوف بنا کر ان کے وسائل پر قابض ہونے جیسے قبیع جرائم کی سرکوبی کے لئے فوج کو سرگرم دیکھنا چاہتی ہے۔ اس حوالے سے فوج بھی اب ادراک کر چکی کہ اگر ملک کی دیرپہ نظریاتی، سرحدی، دینی اقدار اور عوامی حقوق کو اسی طرح پامال کیا جاتا رہا اور مسلح افواج نے کوئی اہم کردار ادا نہ کیا تو پھر شاید اک دن ایسا آئے گا کہ مسلح افواج کے لئے بھی ان مسائل پر قابو پانا مشکل ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ 4 جولائی کو کراچی میں اپیکس کمیٹی کے پانچ گھنٹوں کے اجلاس کی جنرل باجوہ نے صدارت کی اور ہمہ جہتی طور پر ملک اور صوبوں کو درپیش مسائل کا جائزہ لے کر ضروری فیصلے کیے گئے جنرل باجوہ نے کمیٹی اجلاس میں کراچی کور اور رینجرز کی ایجنسیوں کی کارکردگی بہتر بنانے پر مبارکباد دی ہے میں اس ضمن میں ضمنی طور پر جنرل باجوہ کے گوش گذار یہ حقیقت کرنا چاہتا ہوں کہ وہ ایجنسیوں کی اضلاع کی سطح پر بھی کارکردگی کو مزید فول پروف بنانے کا کوئی جامع پروگرام وضع کریں کیوں کہ عوامی سطحوں پر متذکرہ نچلی سطحوں پر ایجنسیوں کی چھوٹی سی بھی اختیارات سے تجاوز سرگرمیوں کو نوٹ کر تے ہیں اور اس عمل سے سادہ لوح عوام کے دلوں میں مسلح افواج کے لئے تحفظات پیدا ہونے لگتے ہیں۔ جس میں آپریٹر موناپلی ، پی ایز موناپلی ، فیلڈ آپریٹرز کی ماورائ اختیارات سرگرمیاں شامل ہیں۔ متذکرہ آپریٹر ، پی ایز اور فیلڈ آپریٹرز کی ملی بھگت نے بھی باقاعدہ چھوٹا سا کرائٹیریا قائم کر رکھا ہے یعنی یہ عناصر اپنی مرضی اور مقاصد کے تحت سوسائٹی کے اہم افراد کو بالا افسران کو خبر ہوئے بغیر ان سے دور رکھنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں جو ہرگز مقامی DETS کے لئے سود مند نہیں بلکہ نقصان دہ ثابت ہو رہی ہے اور کئی نہایت اہم حقائق بالا افسران تک سوسائٹی کے یہ اہم افراد بہم پہنچانے تک ناکام رہتے ہیں جس کے نتائج اچھے نہیں نکلتے۔ کیوں کہ جنرل راحیل شریف نے فوج میں کھلے احتساب کے عمل کی داغ بیل ڈالی ہے اس لئے اگر متذکرہ نوع کی گیم کے کھلاڑی افسران کی طبع نازک پر گراں نہ گذرے تو میں جنرل باجوہ صاحب سے دست بستہ عرض کروں گا کہ وہ آپریٹرز پی ایز کے فونز کالز ریکارڈ کرنے کا الیکٹرانک سسٹم قائم کریں۔ تاکہ بالا افسر کو معلوم ہوسکے کہ کس نے ملنا تھا اور کس کو کیوں بھگادیا گیا ہے اول تو سسٹم قائم و رائج ہونے کے بعد یہ عمل ختم ہوجائے گا اور اضلاع یعنی گراس روٹ سطحوں سے مزید بہت کچھ ایجنسیوں کے ذمہ دار افسران تک پہنچنے کے امکانات روشن ہوں گے جو ایجنسیوں کی مجموعی کارکردگی میں کئی فیصد اضافہ کا سبب بن کر سونے پر سہاگہ کے مترادف ہوگا میں سمجھتا ہوں کہ مسلح افواج کے بالا سطح کے افسران بین السطور کے مفہوم کو بہت اچھی طرح سمجھ گئے ہوں گے۔

مزیدخبریں