مادرِ ملت کی موت کا معمہ

Jul 09, 2017

عدنان عالم

”میں اپنے بھائی کے پاس دفن ہونا چاہتی ہوں اور کہیں نہیں“یہ الفاظ مادرِملت محترمہ فاطمہ جناح نے اُس وقت ادا کئے جب لیڈی ہدایت اللہ اُن کے پاس اطلاع لے کر پہنچیں کہ پاکستان ایجوکیشن بورڈ کی انتظامی کمیٹی نے ایک قرار داد منظور کی ہے جس کی روشنی میں مادرِ ملت کو سکول کے احاطے میں دفن کیا جائے گا۔ تحریک پاکستان کے مقاصد، قومی نظریہ پاکستان، جمہوریت اور انسانی حقوق یہ سب باتیں محترمہ فاطمہ جناح نے اپنے بھائی سے سیکھیں اور ان کے حصول اور فروغ کے لیے مل کر جدوجہد کی جب وہ اکیلی رہ گئیں تو اپنے عظیم بھائی کے مشن کو جاری رکھا بار بار حکومتوں کو ان کا فرض یاد دلایا اور قوم کو بیدار رکھا وہ ڈرائنگ روم کی نہیں عام لوگوں میں رہ کر سیاست کرنے والی خاتون تھیں اور یہ تربیت انہیں اپنے بھائی سے ملتی رہی۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کے ہم نے پاکستان بنانے والوں اور بچانے والوں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا المیہ یہ ہے کہ ڈرائنگ روم کی سیاست سے دور رہنے والی اس قومی شخصیت کو ایک روز ڈرائنگ روم میں ہی مردہ پایا گیا۔چند سال قبل ممتاز قانون دان شریف الدین پیر زادہ نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ مادرِ ملت کی وفات طبعی نہیں تھی۔ جس کی تفصیل وہ نہ بتا سکے۔ اس انکشاف پر شدید ردِعمل بھی سامنے آیا اور متضاد آراءکے بعد اس معاملہ کی تحقیق و تصدیق نہ ہو سکی۔ محترمہ فاطمہ کے انتقال کی خبر لیڈی ہدایت اللہ کو ہوئی تھی اور انہوں نے نورالصباح کو فون کرکے اطلاح تھی جو سب سے پہلے موہٹہ پیلس پہنچیں باہر لوگوں کا مجمع تھا۔ لیڈی ہدایت اللہ انہیں اس کمرے میں لے گئیں جہاں محترمہ فاطمہ جناح آرام سے لیٹی ہوئی تھیں وہاں ابولحسن اصفہانی اور ان کی بیگم بھی وہی موجود تھیں۔کسی نے محترمہ فاطمہ جناح کے قتل کا ذکر نہیں کیا۔
قطب الدین عزیز نے بھی چند سال پہلے اسلام آباد کی ایک تقریب میں کہا تھاکہ مادرِملت طبعی موت مریں انہیں قتل نہیں کیا گیا۔ انہوں نے بتایا کہ مادرِملت کے پاس میری والدہ کا آنا جانا تھا۔8 جولائی کی صبح ان کا ڈرائیور ہمارے گھر آیا اور اس نے اطلاح دی کہ مادرِملت کا انتقال ہوگےا ہے۔ موہٹہ پیلس کے تقریباً53 کمرے تھے۔ مادرِملت کے خادمہ اور ڈرائیور بڑے وفادار تھے۔ جب ہم موہٹہ پیلس پہنچے تو ڈاکٹر کرنل جیلانی شاہ، ایم اے اصفہانی اور دوسرے لوگ بھی آ گئے۔ محمد ہارون کی اہلیہ اور ان کے خاندان کی دوسری خواتین بھی پہنچ گئیں۔ اس دوران میں نے والدہ سے پوچھا مادرِملت کا انتقال کیسے ہوا تو انہوں نے کہا کہ گردن پر ایک سرخ لکیر ہے اور کوئی ثبوت نہیں ملا، بستر پر خون بھی نہیں تھا۔ڈاکٹر کرنل جیلانی ان کے معالج تھے۔انہوں نے بھی یہی رپورٹ دی۔ بزرگ سیاست دان نواب زادہ نصراللہ خان مرحوم نے بھی شریف الدین پیر زادہ کے بیان کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں بھی مادرِملت کے قتل کا اُسی وقت پتا چل گیا تھا لیکن انسپکٹر جنرل پولیس مغربی پاکستان نے اس کیس کو دبا دیا، پھر مادرِملت کا ایک بھانجا بمبئی سے آیا اس نے بھی معاملہ اٹھایا مگر ایک سازش کے تحت اُسے بھی دبا دیا گیا۔ایک اور انکوائری رپورٹ جو مغربی پاکستان کے وزیر ِداخلہ قاضی فضل اللہ نے پیش کی، جس میں تفصیل سے موت کی وجوہات پر روشنی ڈالی گئی اور رپورٹ میں کہا گیاکہ میت کو غسل دینے والی تین خواتین اور تجہیز و تدفین کرنے والا حاجی کلو تھاان خواتین اور حاجی کلو کے بیانات سے ثابت ہوتا ہے کہ محترمہ فاطمہ جناح کے بدن گردن اور جسم پر زخموں کے نشانات تھے مگر اس رپورٹ کو سامنے ہی نہ لایا گیا۔ قائد اعظم کے بھانجے اکبر پیر بھائی نے بھی یہی خیال ظاہر کیا کہ محترمہ فاطمہ جناح کو ان کے ساتھی ملازم نے قتل کیا۔بعد ازاں متعدد شخصیات نے اپنے اپنے خدشات کا اظہار کیا مگر کوئی بھی اس معمہ کے حل کی جانب نہیں جا سکا۔کرنل ایم ایچ شاہ اور کرنل ایم جعفر نے اپنے دستخط کے ساتھ اس امر کی تصدیق کی کہ محترمہ فاطمہ جناح کی موت سوتے میں حرکتِ قلب بند ہونے سے ہوئی،گو کہ محترمہ کی المناک موت کی خبر نے ملک و ملت کو ہلا کر رکھ دیا تھا ، ہر شخص اس صدمہ سے پریشان تھا کہ قوم ایک شفیق اور مہربان ہستی سے محروم ہوگئی ہے جو بحرانی اور مشکل لمحات میں ان کو تسلی و تشفی دیتی تھی اور ان کے دُکھ درد میں برابر کی شریک تھیں۔ مگر مادرِملت کی موت ایک متنازعہ مسئلہ بن چکی تھی، ہر شخص ان کی اچانک موت سے پریشان تھا، اس واقعے کے متعلق اخباروں میں جو ڈاکٹروں کے بیانات چھپے ان کے مطابق محترمہ کی موت حرکت قلب بند ہونے سے واقع ہوئی تھی حالانکہ فاطمہ جناح کے حالات زندگی کے مطالعے سے یہ بات کبھی بھی نہیں ملی کہ وہ عارضہ قلب کی مریضہ رہی ہوں۔ اس کے علاوہ ان لوگوں کے متضاد بیانات بھی اس اس المناک حادثہ کی اصلیت کو جاننے میں ممدومعاون ثابت نہیں ہوئے جو ان کے موت کے وقت پیش پیش تھے۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر مادرِملت کی موت قدرتی نہیں تھی تو ان کے قریبی رشتہ داروں نے زبان کھولنا کیوں گوارہ نہ کیا؟ اگر محترمہ فاطمہ جناح کو اپنی خواب گاہ میں قتل کیا گیا تو حزب اختلاف اور خاص مسلم لیگ نے اس مسئلہ کو کیوں نہیں اُٹھایا؟ ایک اور بات یہ اگر مادرِملت کا ملازم انہیں قتل کرکے فرار ہوگیا ،اس کا نام پتہ بھی موجود تھا ۔اسے گرفتار کیا جا سکتا تھا، اس کی گرفتاری کے لیے تصویر مشتہر کرکے انعام رکھا جا سکتا تھا، ایسا کچھ نہیں ہوا، بلکہ سید دربار علی شاہ کمشنر کراچی نے طبعی موت ہوئی ہے کہ کر معاملہ دبانے کی کوشش کی ۔یہی دربار علی شاہ بعد میں صدر ایوب خان کا منظورِ نظر تھا۔براہ راست جنرل ایوب کے اس قتل میں ملوث ہونے کی شہادت نہیں ملی صرف اندازے اور قیاس آرائیاں موجود ہیں، تاہم اکثریت نے اس بات سے اتفاق کیا ہے کہ مادرِ ملت کی موت طبعی نہیں تھی۔ بقول حبیب جالب ....
اب رہیں چین سے بے درد زمانے والے
سو گئے خواب سے لوگوں کو جگانے والے
دیکھنے کو تو کروڑوں ہیں مگر کتنے ہیں
ظلم کے آگے کبھی سر نہ جھکانے والے
مر کے بھی کب مرتے ہیںمادر ملت کی طرح
شمع تاریک فضاﺅں میں جلانے والے

مزیدخبریں