شاہد رشید
مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناحؒ کو قائداعظمؒ کی بہن کے حوالے سے بہت بلند مقام حاصل ہے۔ انہوں نے قیام پاکستان کے بعد خصوصاً 1965ء کے سیاسی نقشے پر جو حیرت انگیز اثرات چھوڑے وہ ہماری تاریخ کا اہم حصہ ہیں۔ 1929ء سے 1948ء تک اور وفات قائداعظمؒ کے بعد بھی وہ جتنا عرصہ بقید حیات رہیں یعنی 1948ء سے 1967ء تک۔ انہوں نے 1965ء کے صدارتی انتخاب میں حصہ لے کر تحریک پاکستان کی ہمہ گیر عوامی شرکت کی یادیں تازہ کر دیں ۔ مادر ملت31 جولائی 1893ء کو کراچی میں جناح پونجا کے ہاں پیدا ہوئیں۔ ابھی دو برس کی تھیں کہ والدہ کا انتقال ہو گیا۔ قائداعظمؒ ان دنوں انگلستان میں تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ مادرِ ملتؒ نے ابتدائی تعلیم گھر پر حاصل کی‘ بعد میں پرائمری سکول میں داخلہ لیا۔ جب آٹھ برس کی ہوئیں تو والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ اس کے بعد قائداعظمؒ نے آپ کی تعلیم و تربیت کا فرض اپنے ذمے لے لیا۔ 1919ء میں دندان سازی کی تربیت حاصل کرنے کلکتہ چلی گئیں۔ دو برس کے بعد تعلیم مکمل کرکے آپ بمبئی واپس آئیں اور 1929ء تک پریکٹس کی۔ 1930ء میں جب قائداعظمؒ گول میز کانفرنس میں شرکت کے لیے لندن تشریف لے گئے تو مادرِ ملتؒ بھی ان کے ہمراہ تھیں۔ آپ نے پانچ برس لندن میں قیام کیا اور اس دوران یورپ کے مختلف ملکوں کا دورہ کیا۔ لندن سے واپسی پر جب قائداعظمؒ نے 1935ء میں مسلم لیگ کی صدارت سنبھالی تو مادرِ ملتؒ بھی عملی سیاست میں فعال ہو گئیں۔ جب مار چ 1940ء میں مسلم لیگ نے اپنے تاریخی اجلاس میں قراردادِ لاہور منظور کی تو مادرِ ملتؒ نے برصغیر بھر کی مسلم خواتین پر پاکستان کا مطلب واضح کرنے اور انہیں متحرک اور منظم کرنے کے لئے جدوجہد شروع کر دی۔ اس دوران آپ نے اگست 1942ء میں کوئٹہ میں خواتین کے ایک جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:-
’’ہم مسلمان بہت چین کی نیند سو چکے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دوسری قوم نے ہمیں کمزورسمجھ کر دبانا شروع کر دیا۔ اگر ہم کچھ دن اور نہ جاگتے تو ہمارا نام و نشان مٹ چکا ہوتا۔ ہمیں یہ سمجھ لینا چاہئے کہ ہماری بقا ہماری قوت پر منحصر ہے۔ اسی خیال سے مسلم لیگ نے اپنے اجلاس منعقدہ 23 مارچ 1940ء میں قرارداد لاہور منظور کرکے الگ مملکت کے قیام کا مطالبہ کیا ہے۔ پاکستان کا قیام ہی ہندوستان کی سیاسی مشکلات کا حل ہے۔‘‘
20 فروری 1929ء کو بابائے قوم حضرت قائداعظمؒ کو عالم شباب میں اپنی اہلیہ محترمہ مریم جناحؒ کی وفات کا صدمہ سہنا پڑا۔ اس وقت محترمہ فاطمہ جناحؒ نے اپنے بھائی کی گھریلواورمعاشرتی پریشانیوں کا دلسوزی سے احساس کیا اور وہ ان کی خدمت پر کمر بستہ ہو گئیں۔ 1938ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کی ’’سنٹرل ویمن سب کمیٹی‘‘ کے لیے منتخب کیا گیا اور اس عہدے پر آپ قیامِ پاکستان تک فائز رہیں۔ اُنہی کے ایماء پر دہلی میں فروری 1941ء میں آل انڈیا مسلم لیگ ویمن سٹوڈنٹس فیڈریشن کا قیام عمل میں لایا گیا۔ آل انڈیا مسلم ویمنز کانفرنس کو بھی محترمہ کی سرپرستی حاصل تھی۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہوگا کہ 1937ء کے لیگ سیشن میں مسلمان خواتین کو باقاعدہ لیگ میں شامل کرنے کے لیے ابتدائی کام کا آغاز کردیا گیا تھا اگرچہ لیگ کے کھلے اجلاس میں خواتین کی باقاعدہ شمولیت کا اعلان نہیں کیا گیا تھا۔ البتہ بعدازاں‘ پٹنہ کے لیگ سیشن میں 32مسلمان خواتین پر مشتمل‘ مرکزی سب کمیٹی کی تشکیل کی گئی تھی جس میں بمبئی سے محترمہ فاطمہ جناحؒ کو ممبر چنا گیا تھا۔ مرکزی کمیٹی کا پہلا سالانہ اجلاس 1938ء میں لاہور میں منعقد ہوا جس میں محترمہ کا حصہ قابل رشک تھا۔ اس اجلاس میں ملک بھر سے مسلمان خواتین نے حصہ لیا۔ اس موقع پر جہاں بیگم مولانا محمد علی جوہر‘ بیگم نواب حفیظ الدین اور بیگم نواب بہادر یار جنگ نے خطاب کیا‘ وہاں مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناحؒ نے بھی خطاب فرمایا اور یہ خطاب اُردو میں تھا۔
اپریل 1941ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس‘ مدراس‘ میں بھی مسلمان خواتین کی شرکت دیدنی تھی۔ اس موقع پر ’’آل انڈیا ویمنز سنٹرل سب کمیٹی‘‘ کی از سرنو تشکیل کی گئی۔ اس مرتبہ 35خواتین پر مشتمل خواتین کے اسماء سامنے آئے جن میں محترمہ فاطمہ جناحؒ کو دوسری بار بمبئی کے حلقہ سے چنا گیا۔
اس کمیٹی کے تیسرے انتخابات 1943ء میں ہوئے۔ اس مرتبہ لیگ کے سالانہ اجلاس منعقدہ دہلی کے موقع پر ’’ویمنزسنٹرل کمیٹی‘‘ کے نئے ممبر چنے گئے لہٰذا مدراس اجلاس کی قرارداد کی روشنی میں اس مرتبہ 38خواتین کے نام سامنے آئے جن میں محترمہ فاطمہ جناحؒ کو بمبئی کے حلقے سے مسلسل تیسری مرتبہ چنا گیا۔1947ء میں اپنی سرکردگی میں کراچی میں ’’ویمن ریلیف کمیٹی‘‘ قائم کی جس نے بھارت سے نقل مکانی کرنے والی ہزاروں مسلمان خواتین کی دیکھ بھال کی۔ اس کمیٹی کو بعدازاں’’آل پاکستان ویمنز ایسوسی ایشن‘‘ کا نام دیا گیا۔ جب آپ نے حزبِ اختلاف کی جانب سے ایوب خان مرحوم کے خلاف صدارتی امیدار بننا منظور کر لیا۔ مادرِ ملتؒ نے انتخابی مہم کے سلسلے میں ملک کے دونوں حصوں (مغربی اور مشرقی پاکستان) کے طوفانی دورے کئے اور اپنی پُرمغز اور قوم ساز تقاریر سے عوام کے اندر تحریک پاکستان کے ولولے پیدا کیے۔9 جولائی 1967ء کو حق و صداقت کی یہ آواز ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گئی۔ وہ رات کو اچھی بھلی سوئیں اور صبح بیدار نہ ہوئیں۔ مادرِ ملتؒ کی رحلت سے برصغیر کے مسلمانوں کی جدوجہد آزادی کا ایک درخشاں باب ختم ہو گیا۔ آپ کو مزار قائداعظمؒ کے احاطے میں دفن کیا گیا۔