نواز شریف، مریم اور کیپٹن صفدر کو اپنے کئے کی سزا مل گئی۔ٹرائل لمبی اور تکلیف دہ تھی۔ فیصلے کے دن سارے شیر اور ان کے درباری غائب تھے۔ان سے پہلے وزیر اعظم بھٹو کو اسی عدالتی نظام نے پھانسی دے دی تھا۔ زرداری صاحب بھی کافی سزا بھگت چکے ہیں۔یہ نظامعدل و انصاف کانظام نہیں ہے۔ چند سزاو¿ں سے ملک سے کرپشن نہیں ختم ہو سکتی۔بے بنیاد جمہوری نظام ملک میں کبھی انصاف اور عدل پیدا نہیں ہونے دے گا۔حکمران سزائیں بھگت لیتے ہیں، تذلیل برداشت کر لیتے ہیں مگر مال و دولت کی حرص چھوڑنے پر تیار نہیں۔ عوام کو سیڑھی بنا کر اوپر چڑھتے ہیں اور سیڑھی کو اوپر کھینچ لیتے ہیں تاکہ عوام سے کوئی اور اوپر نہ آجائے۔ جمہوریت کاگلی محلے میں داخلہ ممنوع ہے۔ تعلیم اور صحت کے پراجیکٹس ان کی ترجیح لسٹ میں شامل نہیں ہوتے۔ ان کی دوڑ عوام کے کھاتے میں ڈالرز کا قرضہ لے کر نمائشی پراجیکٹس کرناہوتا ہے ۔ لوکل باڈیز (جمہویت کی بنیاد)کے بجائے پیسہ اسمبلی کے ممبران کو دیا جاتا ہے جنہیں خریدنا آسان ہوتا ہے۔ حکمران چاہے ووٹوں سے آئے پروٹوکول اور طاقت کے نشے میںآمر بن جاتا ہے اور جب تجربہ کار ہو جاتا ہے تو اپنے گرد قوانین سے حفاظتی دیواریں بنا لیتا ہے اور ممولے مشیر رکھ لیتا ہے اس کے ہاں جاگیردار سرمایہ دار موٹے تازے اور عوام دن بہ دن کمزور ہوتے جاتے ہیں ۔ آمر بدنامی کے سارے کھاتے ملک کے اکاو¿نٹ میں ڈالتا جاتا ہے اور اندر ہی اندر اپنے لئے مال ملک سے باہر جمع کرتارہتا ہے حتیٰ کہ قبر میں اتر جاتا ہے۔ اس کے سامنے عبرت کے نشان رکھے بھی ہوں تو سبق سیکھ کر اپنی آخرت کو بچانے کی کوشش نہیں کرتا ۔ یہ عالمی معاشی دہشت گردی ہے کہ ملک میں معمولی افادیت والے دکھلاوے کے پراجیکٹ عوام کو رہن رکھ کر کئے جائیں اور ان پراجیکٹس کو شترِ بے مہار کی طرح چھوڑ دیا جائے۔ سابقہ حکمرانوں کے مشہور پراجیکٹس دیکھ لیجئے ۔ ان کو مکمل ہونے نہیں دیا جاتا۔ ان کی قیمت اور مدت ِتکمیل شیطان کی آنت کی طرح بڑھتی رہتی ہے۔نیلم جہلم ، لواری ٹنل، اسلام آباد ائرپورٹ اور نندی پوراس کی ادنیٰ سی مثال ہے۔ امیر المومنین حضرت علی ؓ کا قول ہے کہ ” الناسُ ابنای ما یُحسبون“یعنی لوگ اپنے اعمال سے منسوب ہوتے ہیں۔ حکمران اعمال کے حساب سے وقت کے قارون ہیں ، فرعون ہیں تو ان کا انجام کیسے مختلف ہو سکتا ہے ؟ یہ درہم اور ڈالر کی اولاد ہیں۔ نواز شریف خود کہتے ہیں کہ ان کے والد سکہ مٹھی میں رکھ کر ہمارا مقابلہ کرواتے کہ کون ان کی مٹھی کھول کر یہ سکہ جیت سکتا ہے؟ کہتے ہیں میں ہمیشہ جیت جاتا رہا۔ آج تک وہ سکے کی دوڑ میں شامل ہیں او ر ان کی اولاد نے بھی اسی شعبے میں اپنا لوہا منوا لیا۔ حکیم لقمان اپنی اولاد کی تربیت میں اولاد سے کہتے ہیں کہ لوگوں کے سامنے گال نہ پھلا نا اور زمین پراترا کر نہ چلنا۔اللہ کسی شیخی خورے کو پسند نہیں کرتا۔ رفتار میں میانہ روی اور پست آواز کا بھی حکم ہے۔ مثال
گدھے کی آواز ہے کہ وہ بدتر ہوتی ہے۔ کیا اکثر حکمران اور ان کی اولادیں اخلاقی طور پر دیوالیہ نہیں ہیں؟ لوگوں کے مال سے جو سڑکیں بناتے ہیں ان کا احسان یوں جتلاتے ہیں جیسے اپنی زکوٰة اور خیرات سے پراجیکٹ کر رہے ہوں۔ کافر اور ہندو اپنی دولت عوامی فلاح کے پراجیکٹس پر بے دریغ خرچ کر دیتے مگر مسلمان ، جو دنیا میں مسافر بن کے آتے ہیں اپنی دولت کفار کے بینکوں میں محفوظ کر کے رکھتے ہیں۔ بلِ گیٹس کے کتنے فلیٹ ہیں اور اس نے اپنی کتنی دولت اپنی اولادوں کی نام سے چھپا رکھی ہے؟ گنگا رام کی شہرت کس وجہ ہے کیا نواز شریف
کو معلوم نہیں؟ یہ کیسے حکمران ہیں جن کی آنکھیں ہیں دیکھتے نہیں ہیں، کان ہیں سنتے نہیں ہیں، دل ہیں سوچتے نہیں ہیں!! انمیں سے ہرحکمران ایک ظالمانہ عدالتی نظام کا ڈسا ہوا ہے مگر عدالتی نظام تبدیل کرنے پر کوئی تیار نہیں۔ عدالتیں ٹھیک ہو جائیں تو قول صادق اور رزق
حلال کا رواج بن جائے گا۔ یہاں عدالتیں اور بار کونسلز طاقتور ہیں وہ بھی عوام کی خاطر کسی پیش قدمی پر بارش کا پہلا قطرہ بننے پر تیار نہیں۔ چیف جسٹس ملک میںانتظامی بے راہ روی کو روکنے کی جو تگ ودو کر رہے ہیں وہ ناپائیدار ہے۔ان کے زیر سایہ عدالتیں ، وکیل اور پولیس عوام کاخون چوس رہے ہیں۔ بے فائدہ جھوٹے مقدمات کی بھرمار ہے۔عوام کو نہ صرف معاشی طور پر لوٹا جا رہا ہے بلکہ ذہنی مریض بھی بنایا جا رہا ہے۔مقدمات کی تعداد ،طوالت اور کچہریوں ،جیلوں اور حوالات کے دورے کرنے سے کسی بھی انسانیت کے ہمدرد کے خوف اور دکھ سے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ نواز شریف کی سزا سے پاکستان ان ممالک کی فہرست میں شامل ہو گیا ہے جن کے حکمرانوں کو کرپشن پر سزاہوئی مگر ملک کو اس سے فائدہ تب ہو گا جب نظام درست ہو گا تاکہ آئندہ کسی کو خیانت کی جرات نہ ہو اور ملکی دولت کو ان سے واپس مکمل طورپر لیا جائے۔ نواز شریف کی تباہی کی بڑی وجہ سودی نظام کو ختم کرنے کا دعدہ کرنے کے باوجود اسی نظام سے دولت جمع کرنا اور ختم نبوت کے اقرارنامہ کو خفیہ چال سے ختم کرنے کی کوشش ہے۔پاکستان کو نقصان پہچانے والے نہ پہلے بچے ہیںنہ اب بچیں گے۔ نواز شریف ہی نہیں بلکہ ملک کے سارے مافیا اور معاشی دہشت گردوں کی دولت کا حساب آج کی مارکٹ ویلیو پر کیا جانا چاہیے۔ کروڑوں کی جائیداد کو دھڑلے سے تین لاکھ کا دکھانا اور کہنا کہ یہ قانونی ہے۔ قانون کو اپنے مفاد کیلئے بدلنے کی اس سے بڑی اور بری مثال کیا ہو سکتی ہے؟ یہ بدترین عدالتی نظام ہے جہاںملزم یا مجرم عدالت آتا ہے تو فل پروٹوکول کے ساتھ اور جیل جاتا ہے تو وکٹری سائن بناتے ہوئے جاتا ہے۔ یہ جرائم کی حوصلہ افزائی کی عام سی مثال ہے۔ اس گروہ کو ہی نہیں بلکہ اس ملک سے ہر مافیا کو ختم کرنا چاہیے مگر نظام بدلے بغیر یہ ہو نہیں ہو سکتا۔ ملک کے معاملات کا بڑا انحصار اس پر ہے کہ نوازشریف اور مریم پاکستان واپس آکر کیا رویہ رکھتے ہیں ۔اگر انہوں نے ذاتی مفاد کی خاطر اداروں کی ٹکراو¿ کا راستہ اختیارکیا تو وہ خود تو ڈوبیں گے مگر ملک کو بھی ڈبونے کی کوشش کریں گے۔گوئٹے نے کیا خوب کہا؛ ربِ عظیم!تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ تجھے یہ غریب خانہ پسند آیا۔انسان چاہے تو بڑے سے بڑا گھر تعمیر کرنا دشوار نہیں مگر آخر کاراس کا مقدر تو دو گز زمین ہی ہے!؛ ہم اللہ سے دعا کرتے ہیں اللہ ملک کی حفاظت کرے اوراے اللہ !لا تسلط علیّ من لا یرحمنا۔
بڑا کٹھن ہے خزاں کے ماتھے پرداستانِ گلاب لکھنا!!
Jul 09, 2018