ترکی:ایمرجنسی کے خاتمے سے قبل 18500 سرکاری ملازمین برطرف

انقرہ(نیوز ایجنسیاں) ترکی نے فوجی بغاوت میں معاونت فراہم کرنے کے شبہ میں 18 ہزار 500 ملازمین کو نوکریوں سے برطرف کر دیا،اتوار بین الاقوامی میڈیا رپورٹس کے مطابق ترکی میں اعلی حکام نے ایک نیا حکم نامہ جاری کیا ہے۔ برطرف کردہ ملازمین میں 9 ہزار پولیس اہلکار، 5 ہزار فوجی اور 200 کے قریب مختلف جامعات کے اساتذہ شامل ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ ناکام فوجی بغاوت کے بعد ہونے والی برطرفیوں کا یہ آخری حکم نامہ ہوسکتا ہے کیونکہ رجب طیب اردگان صدارتی حلف اٹھانے کے بعد 2 سال سے نافذ ہنگامی حالت کو اٹھانے کا اعلان کریں گے۔ واضح رہے کہ 2016 میں منتخب جمہوری صدر کا تختہ الٹنے کی کوشش کے الزام میں اب تک 50 ہزار کے قریب سول و عسکرین ملازمین کو گرفتار اور عہدوں سے برطرف کرکے ان کے خلاف مقدمات چلائے جارہے ہیں۔ ترک حکام نے پولیس افسران، فوجی اہلکاروں سمیت 18 ہزار 5 سو سرکاری ملازمین کو بغاوت کی صورتحال کے پیش نظر لگائی گئی 2 سالہ ایمرجنسی کے خاتمے سے قبل برطرف کردیا۔ اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق سرکاری اعلامیے میں کہا گیا کہ 18 ہزار 632 افراد کو برطرف کیا گیا جن میں 8 ہزار 998 پولیس افسروں کو دہشت گرد تنظیم کو ملک کی قومی سلامتی کے خلاف کام کرنے والی دہشت گرد تنظیم کا ساتھ دینے پر برطرف کیا گیا۔ خیال رہے کہ ترکی میں جولائی 2016 کو صدر رجب طیب اردوان کو ہٹانے کی کوشش کے بعد سے سے ایمرجنسی نافذ ہے تاہم یورپی یونین اور ناقدین نے بارہا انقرہ سے اس کے خاتمے کا مطالبہ کیا تھا۔ ترک میڈیا کے مطابق اتوار کو سرکاری ملازمین کی برطرفی کا آخری مرحلہ پورا ہوگیا تاہم حکام نے اشارہ دیا ہے کہ پیر کی صبح دوبارہ ایمرجنسی نافذ ہوسکتی ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ ترک صدر ایمرجنسی نافذ کیے جانے پر اختیارات کو استعمال کر رہے ہیں تاکہ مخالفین کو نشانہ بنایا جاسکے۔ تاہم حکومت کا کہنا ہے کہ ’یہ انتہائی ضروری ہے تاکہ ریاستی اداروں میں موجود خطرات کا خاتمہ کیا جاسکے۔ برطرف کیے گئے زیادہ تر افراد پر الزام ہے کہ ان کا تعلق فتح اللہ گولن سے ہے۔ حکومت نے اس تحریک کو ’فتح اللہ دہشت گرد تنظیم‘ کا نام دیا ہے تاہم فتح اللہ گولن نے ترک حکومت کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کی تنظیم امن پسند ہے۔ جولائی 2016 میں نافذ کی گئی ایمرجنسی کے بعد سے اب تک تقریباً 1 لاکھ 10 ہزار کے قریب سرکاری ملازمین کو برطرف کیا جا چکا ہے۔ برطرف کیے جانے والے 18 ہزار ملازمین میں سے نصف کا تعلق پولیس سے ہے جب کہ ان میں مسلح افواج کے پانچ ہزار سے زائد اہلکار اور افسر بھی شامل ہیں۔ جن ملازمین کو برطرف کیا گیا ہے ان میں ملک بھر کی یونیورسٹیوں کے 199 اساتذہ بھی ہیں۔ گزشتہ ماہ ہونے والے صدارتی اور پارلیمانی انتخابات میں صدر رجب طیب اردگان اور ان کی جماعت 'آق' پارٹی کی کامیابی کے بعد حکومت کی جانب سے ملازمین کی برطرفی کا یہ پہلا حکم نامہ ہے جو صدر کی حلف برداری سے محض ایک روز قبل جاری کیا گیا ہے۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...